بچوں کو موبائل اسکرین کی خطرناک شعاعوں سے کیسے بچائیں؟

ٹیکنالوجی میں جدت آئی تو لیب ٹاپ اور کمپیوٹر کی جگہ آئی پیڈز اور ٹیب استعمال ہونے لگے۔ ہرپل دنیا سے جڑے رکھنے والی ٹیکنالوجی سے خارج ہونے والی الیکٹرومیگنیٹک ریڈیئیشن یعنی تابکاری شعاعوں کے ہمارے دماغ اور جسم پر اثرات اتنے خطرناک ہیں جس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔

موبائل فون کا استعمال ضرورت سے زیادہ اب عادت بن چکا ہے۔ اب تو ایسا لگتا ہے کہ انسان موبائل نہیں بلکہ موبائل انسان کو استعمال کررہا ہے۔ بے شک یہ ضرورت ہے لیکن اب عادت اور مجبوری کی شکل اختیار کرچکا ہے۔

2017 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ؛
عالمی ادارہ صحت اور کینسر پر تحقیق کا عالمی ادارہ آئی اے آرسی نے اپنی جاری کردہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ” پچھلی دو دہائیوں میں بچوں کے کینسر میں 13 فیصد اضافہ ہواہے۔ اور موبائل فون کینسر کے لئے ممکنہ رسک ہے”۔
امریکن اور کینیڈین ریسرچ برائے اطفال کے مطابق اس خطرے کی زد میں بچے سب سے آگے ہیں ۔

ماہرین اطفال کے مطابق؛
اس کے استعمال سے دماغ کی رسولیاں ہوسکتی ہیں افسوسناک بات یہ ہے کہ اس طرح کے کیسز تواتر کے ساتھ رپورٹ ہوئے ہیں۔ اس سے گردن کی ہڈی میں خم پیدا ہونے کے خطرات نمایاں نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ موبائل استعمال کرنے سے ہاتھ کے پٹھے بھی متاثر ہوتے ہیں جس کے علیحدہ آپریشن ہوتے ہیں ۔

سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ملک میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد 14کروڑ سے تجاوز کرگئی ہے۔ ٹیکنالوجی کا بے جا استعمال ایک خاموش قاتل بن چکاہے۔ لیکن ہمارے ہاں اس پرنہ توتحقیق ہوتی ہے اورنہ کوئی آگاہی فراہم کی جاتی ہے۔ اس پر باقاعدہ مہم جوئی کی ضرورت ہے۔ ایسا بالکل نہیں کہ آپ بچوں کو ٹیکنالوجی سے بالکل ناواقف یا دور کردیں بس احتیاط کریں۔ کسی بھی چیز کی زیادتی یقینا نقصان کاباعث بنتی ہے۔اپنے بچوں کوموبائل فون سے پہنچنے والے نقصانات سے بچانے کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر عمل کرنے کی کوشش کریں:

1۔آپ خود موبائل کااستعمال کم کریں:
سب سے پہلے آپ کو اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے ۔اگرآپ بچہ کے سامنے ہروقت موبائل استعمال کریں گے تو آپ کا بچہ بھی اس کی ڈیمانڈ کرے گا۔اسے لگے گاکہ جس طرح کھانا، پینا، سونا، جاگنا زندگی کاحصہ ہے بالکل اسی طرح روزانہ موبائل کا استعمال بھی اس کی اہم ضرورت ہے۔ یاد رکھیں بچہ سنتا کم ہے دیکھتا زیادہ ہے۔

2۔ بچوں کووقت دیں:
بچے موبائل اسی وقت لیتے ہیں جب وہ فارغ ہوتے ہیں۔ انھیں سمجھ ہی نہیں آتاکہ وہ کیاکریں۔ پہلے تو ان کی بوریت دور کریں ان کے ساتھ کھیلیں۔انھیں کہانیاں سنائیں۔ ماضی کے واقعات اور تجربات سے آگاہ کریں۔اچھے برُے کی تمیز سکھائیں اور انھیں تنہائی سے بچائیں۔کسی بھی بچے کی ذہن سازی ،خیال سازی اورشخصیت کو بنانے کے لئے ہیومن ٹچ بہت ضروری ہے۔

3۔ کارٹون موبائل پر نہ دکھائیں:
اینیمیٹڈ کارٹون، الیکٹرانک گیمز اور دیگر وڈیوز بچہ کو موبائل پر دکھانے کی عادت نہ ڈالیں۔اگرآپ کو اپنا بچہ اور اس کی صحت عزیز ہے تو بچہ کو ضد کرنے، رونے، کھانا نہ کھانے پر موبائل ہرگز نہ دیں۔ یاد رکھیں موبائل فون کی بے جا عادت اب نشہ میں شمار ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں جب تک آپ کابچہ اسے ہاتھ میں نہ لے لے مطمئن نہیں ہوتا۔

4۔ موبائل ضرورت کی چیز ہے:
بچہ کو احساس دلائیں کے موبائل فون ضرورت کی چیز ہے اسی لئے اسے صرف ضرورت کے وقت ہی استعمال کرنا چاہئے۔ ساتھ ساتھ موبائل کے اضافی استعمال سے ہونے والے نقصانات سے بچہ کو آگاہ کریں۔

5۔ سگنل آف کردیں:
ان تمام انرجی سورسس کا ٹرن آف ٹائم بھی ہونا چاہئے۔ تبھی آپ بچ سکتے ہیں اگرآپ نے کوئی بھی ڈیوائس آن رکھی ہے تو اس کے اثرات مستقل آپ پرپڑتے رہیں گے۔ اس سے پلوشن ہرطرف پھیلتی رہے گی۔اگر اس سے بچناہے تو استعمال کے بعد اسے آف کرنا نہ بھولیں۔

6۔موبائل فون ہمیشہ ہاتھ میں نہ رکھیں:
اگرآپ اپنے ہاتھ میں موبائل فون رکھیں گے توآپ کابچہ بھی رکھے گا۔ اس بات کااحساس سب سے پہلے آپ کوکرناہے کہ صرف ضرورت کے وقت ہی موبائل اپنے ہاتھ میں رکھیں۔؎اگر آپ خود ہروقت موبائل استعمال کریں گے تو آپ کابچہ بھی اسی عادت کواپنائے گا کیونکہ آپ کابچہ آپ ہی کا طرز عمل اختیار کرتاہے۔

7۔ آپ کابچہ کیا دیکھتا ہے؟
اس بات کاخیال رکھنا بہت ضروری ہے کہ بچہ کس طرح کا مواد دیکھ رہاہے۔ بچہ جو دیکھتا ہے اسی سے اس کی خیال سازی اورخیال سازی سے ذہن سازی ہوتی ہے اور ذہن سازی سے کردار بنتا ہے۔ اب فیصلہ آپ کریں کہ آپ اپنے بچہ کا کردار کیسا دیکھنا چاہتے ہیں۔

8۔ تربیت پرتوجہ دیں:
پہلے گراؤنڈ نہیں توبچے گلیوں میں ہی کھیل لیتے تھے۔اب حالات کے ڈرسے یہ بھی ممکن نہیں رہا۔ اکثر ماؤں نے اپنی تربیت کی ذمہ داری سے جان چھڑالی ہے۔ تربیت کرنا ایک بڑامشکل عمل ہے اس کے لئے صبرو برداشت چاہئے۔ بچہ کئی سوالات پوچھتا ہے وقت مانگتا ہے۔ پہلے والدین وقت دیتے تھے سوال کاجواب دیتے تھے۔ اس طرح ان کے اندر جو جذبہ ہوتا تھا وہ بچوں میں منتقل ہوجاتا تھا۔

9۔ جذباتی ذہانت کی نشوونما:
مطالعہ کے مطابق جو بچے زندگی میں ہر لحاظ سے کامیاب ترین بنتے ہیں ان میں۔


حالیہ پوسٹیں


Leave a comment