بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نہ جاوّں گا خالی
کچھ نواسوں کا صدقہ عطاء ہو در پہ آیا ہوں بن کر سوالی
حق سے پائ وہ شانِ کریمی مرحبا دونوں عالم کے والی
اس کی قسمت کا چمکا ستارہ جس پہ نظرِ کرم تم نے ڈالی
بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نہ جاوّں گا خالی
زندگی بخش دی بندگی کو آبرو دین حق کی بچا لی
وہ محمد کا پیارا نواسہ جس نے سجدے میں گردن کٹا لی
حشر میں دیکھیں گے جس دم امتی یہ کہیں گے خوشی سے
آرہے ہیں وہ دیکھو محمد جن کے کاندھے پہ کملی ہے کالی
بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نہ جاوّں گا خالی
عاشق مصطفی کی ازاں میں اللہ اللہ کتنا اثر تھا
عرش والے بھی سنتے تھے جس کو کیا ازان تھی ازانِ بلالی
کاش پر نم دیر نبی میں جیتے جی ہو بلاوا کسی دن
حالِ غم مصفطی کو سناوں تھام کر ان کے روضے کی جالی
بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نا جاؤں گا خالی
تمہارے آستانے سے زمانہ کیا نہیں پاتا
کوئی بھی در سے خالی مانگنے والا نہیں جاتا
بھر دو جھولی میری سرکار مدینہ
اپ کے در سے خالی اگر جاؤں گا تانے دے گا زمانہ کدھر جاؤں گا
بھر دو جھولی میری تاجدار مدینہ
تم زمانے کے مختار ہو یا نبی بے کسوں کے مدد گار ہو یا نبی
سب کی سنتے ہو اپنے ہوں یا غیر ہوں تم غریبوں کے غم خوار ہو یا نبی
بھر دو جھولی میری سرکار مدینہ
بھر دو جھولی میری یا محمد لوٹ کر میں نہ جاوّں گا خالی
کچھ نواسوں کا صدقہ عطاء ہو در پہ آیا ہوں بن کر سوالی
بھر دو جھولی میری یا محمد
حالیہ پوسٹیں
- نہیں خوش بخت محتاجانِ عالم میں کوئی ہم سا
- سن لو خدا کے واسطے اپنے گدا کی عرض
- ایمان ہے قال مصطفائی
- افکار کی لذت کیا کہنا جذبات کا عالم کیا کہنا
- عشق کے رنگ میں رنگ جائیں جب افکار تو کھلتے ہیں
- دل میں ہو یاد تیری گوشہ تنہائی ہو
- کیا بتاؤں کہ شہرِ نبی میں پہنچ جانا ہے کتنی سعادت
- بندہ قادر کا بھی قادر بھی ہے عبدالقادر
- سرکار دو عالم کے رخ پرانوار کا عالم کیا ہوگا
- آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
- دل دیاں گلاں میں سناواں کس نوں
- اے عشقِ نبی میرے دل میں بھی سما جانا
- دل دیاں اکھاں کدی کھول تے سہی
- دل ٹھکانہ میرے حضور کا ہے
- مجھے در پہ پھر بلانا مدنی مدینے والے
- باغ‘جنت کے ہیں بہرِ مدح خوانِ اہلِ بیت
- فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر ، ہم بھی بے بس نہیں ، بے سہارا نہیں
- جذب و جنوں میں انکی بابت جانے کیا کیا بول گیا
- سوھنیاں نیں آقا تیرے روضے دیاں جالیاں
- دل رہ گیا ہے احمدِ مختار کی گلی میں