مدینے کی جانب یہ عاصی چلا ہے
کرم کملی والے کا کتنا بڑا ہے
میں کھو جاؤں طیبہ کی گلیوں میں جا کے
یہی آرزو ہے یہی اِک دعا ہے
مجھے اپنی رحمت کے سائے میں لے لو
میرا ہر عمل آقا پُر از خطا ہے
زمانے میں چرچے ہیں تیری سخا کے
تو مجھ جیسے لاکھوں کا اِک آسرا ہے
اشاروں پہ تیرے چلیں چاند سورج
خدا سے جدا ہو یہ کامِ خدا ہے
تعین کریں اختیارِ نبی کا
حماقت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے

مدینے کی جانب یہ عاصی چلا ہے
حالیہ پوسٹیں
- جذب و جنوں میں انکی بابت جانے کیا کیا بول گیا
- نہ آسمان کو یوں سر کشیدہ ہونا تھا
- ذرے اس خاک کے تابندہ ستارے ہونگے
- کون کہتا ہے کہ زینت خلد کی اچھی نہیں
- جس کو کہتے ہیں قیامت حشر جس کا نام ہے
- نگاہِ لطف کے اُمیدوار ہم بھی ہیں
- خوشبوے دشتِ طیبہ سے بس جائے گر دماغ
- ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا
- میں کس منہ سے مانگوں دعائے مدینہ
- عرش پر بھی ہے ذکرِ شانِ محؐمد
- سر تا بقدم ہے تن سلطان زمن پھول
- دل مِرا دنیا پہ شیدا ہو گیا
- تصور میں منظر عجیب آ رہا ہے
- بے اجازت اُس طرف نظریں اٹھا سکتا ہے کون
- قصیدۂ معراج
- معراج کی شب سدرہ سے وریٰ تھا اللہ اور محبوبِ الہٰ
- اُسی کا حکم جاری ہے زمینوں آسمانوں میں
- اشارے سے چاند چیر دیا چھپے ہوئے خور کو پھیر لیا
- زہے عزت و اعتلائے محمد
- تو سب کا رب سب تیرے گدا