کون ہو مسند نشیں خاکِ مدینہ چھوڑ کر
خلد دیکھے کون ، کوئے شاہِ بطحٰی چھوڑ کر
دل کی بستی اور ارمانوں کی دنیا چھوڑ کر
ہائے کیوں لوٹے تھے ہم شہرِ مدینہ چھوڑ کر
گھر سے پہنچے اُن کے روضے پر تو ہم کو یوں لگا
جیسے آ نکلے کوئی گُلشن میں ، صحرا چھوڑ کر
کون نظروں پر چڑھے حُسنِ حقیقت کے سوا
کس کا منہ دیکھیں ہم اُن کا روئے زیبا چھوڑ کر
اللہ اللہ آمدِ سلطانِ انس و جاں کی شان
اک طرف قُدسی بھی ہو جاتے تھے ، رستہ چھوڑ کر
مصطفی جنّت میں جائیں گے نہ اُمّت کے بغیر
جا نہیں سکتا کبھی تنکوں کو دریا چھوڑ کر
تھی نہ چاہت دل میں زَہرا کے دولاروں کی اگر
کیوں اُترتے تھے نبی ، منبر سے خطبہ چھوڑ کر
رہروانِ راہِ حق تھے اور بھی لاکھوں ، مگر
کوئی منزل پر نہ پہنچا ابنِ ” زَہرا” چھوڑ کر
اُن صحابہ کے اس اندازِ قناعت پر سلام
اُن کی چوکھٹ پر جو آ بیٹھے تھے ، کیا کیا چھوڑ کر
وہ ازل سے میرے آقا ، میں غلام ابنِ غلام
کیوں کسی کے در پہ جاؤں ان کا صدقہ چھوڑ کر
خوانِ شاہی کی ہوس رکھتے نہیں ان کے گدا
کیوں اُدھر لپکیں ، وہ ان ٹکڑوں کا چسکا چھوڑ کر
وہ سلامت اور اُن کا در سلامت تا ابد
کیوں پھریں در در ، ہم اس کوچے کا پھیرا چھوڑ کر
میں کہاں گھوموں ، کہاں ٹھہروں ، کسے دیکھا کروں
اُن کی گلیاں ، ان کی جالی ، اُن کا روضہ چھوڑ کر
اتّفاقاََ گر چلے جاتے وہ ساحل پر کبھی
مچھلیاں آتیں قدم لینے کو ، دریا چھوڑ کر
ذہن میں رکھیے وہ ارشادِ نبی وقتِ وصال
جا رہا ہوں سنت و قرآں کو یکجا چھوڑ کر
اے مسلماں ! ہے یہی حکمِ خدا و مصطفی
فکرِ عقبٰی کر ہمیشہ ، فکرِ دنیا چھوڑ کر
پوچھنے پھر کون آئے گا نصیرؔ ان کے سوا
جس لحد میں تجھ کو سب لوٹیں گے تنہا چھوڑ کر
کون ہو مسند نشیں خاکِ مدینہ چھوڑ کر
حالیہ پوسٹیں
- بندہ ملنے کو قریبِ حضرتِ قادر گیا
- میرے مولا کرم کر دے
- کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمھاری واہ واہ
- یہ سینہ اور یہ دل دوسرا معلوم ہوتا ہے
- مصطفی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
- بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کا
- صانع نے اِک باغ لگایا
- مدینہ سامنے ہے بس ابھی پہنچا میں دم بھر میں
- کبھی خزاں کبھی فصلِ بہار دیتا ہے
- تیری جالیوں کے نیچے تیری رحمتوں کے سائے
- پھر اٹھا ولولۂ یادِ مغیلانِ عرب
- قصیدۂ معراج
- کیا جھومتے پھرتے ہیں مے خوار مدینے میں
- روک لیتی ہے آپ کی نسبت تیر جتنے بھی ہم پہ چلتے ہیں
- سرکار دو عالم کے رخ پرانوار کا عالم کیا ہوگا
- خزاں کی شام کو صبحِ بہار تُو نے کیا
- تو شمع رسالت ہے عالم تیرا پروانہ
- یہ کس نے پکارا محمد محمد بڑا لطف آیا سویرے سویرے
- شورِ مہِ نَو سن کر تجھ تک میں دَواں آیا
- صدائیں درودوں کی آتی رہیں گی میرا سن کے دل شاد ہوتا رہے گا