چشمِ دل چاہے جو اَنوار سے ربط
رکھے خاکِ درِ دلدار سے ربط
اُن کی نعمت کا طلبگار سے میل
اُن کی رحمت کا گنہگار سے ربط
دشتِ طیبہ کی جو دیکھ آئیں بہار
ہو عنادِل کو نہ گلزار سے ربط
یا خدا دل نہ ملے دُنیا سے
نہ ہو آئینہ کو زنگار سے ربط
نفس سے میل نہ کرنا اے دل
قہر ہے ایسے ستم گار سے ربط
دلِ نجدی میں ہو کیوں حُبِّ حضور
ظلمتوں کو نہیں اَنوار سے ربط
تلخیِ نزع سے اُس کو کیا کام
ہو جسے لعل شکر بار سے ربط
خاک طیبہ کی اگر مل جائے
آپ صحت کرے بیمار سے ربط
اُن کے دامانِ گہر بار کو ہے
کاسۂ دوست طلبگار سے ربط
کل ہے اجلاس کا دن اور ہمیں
میل عملہ سے نہ دربار سے ربط
عمر یوں اُن کی گلی میں گزرے
ذرّہ ذرّہ سے بڑھے پیار سے ربط
سرِ شوریدہ کو ہے دَر سے میل
کمر خستہ کو دیوار سے ربط
اے حسنؔ خیر ہے کیا کرتے ہو
یار کو چھوڑ کر اَغیار سے ربط
چشمِ دل چاہے جو اَنوار سے ربط
حالیہ پوسٹیں
- اپنی نسبت سے میں کچھ نہیں ہوں، اس کرم کی بدولت بڑا ہوں
- پھر کرم ہو گیا میں مدینے چلا
- کیوں نہ اِس راہ کا ایک ایک ہو ذرّہ روشن
- عارضِ شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں
- اپنی رحمت کے سمندر میں اُتر جانے دے
- کرم کی ادھر بھی نگاہ کملی والے
- سرکار یہ نام تمھارا سب ناموں سے ہے پیارا
- عرشِ حق ہے مسندِ رفعت رسولُ اللہ کی
- میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے
- میں لب کشا نہیں ہوں اور محو التجا ہوں
- چھائے غم کے بادل کالے
- مرحبا عزت و کمالِ حضور
- ساہ مُک چلے آقا آس نہ مُکی اے
- خلق کے سرور شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم
- اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے
- اے حبِّ وطن ساتھ نہ یوں سوے نجف جا
- کرے چارہ سازی زیارت کسی کی بھرے زخم دل کے ملاحت کسی کی
- دل و نگاہ کی دنیا نئی نئی ہوئی ہے
- جاں بلب ہوں آ مری جاں الغیاث
- خوشی سب ہی مناتے ہیں میرے سرکار آتے ہیں