دلوں کی ہے تسکیں دیارِ مدینہ
ہے جنت سے بڑھ کے غبارِ مدینہ
چلو سر کے بل اے میرے ہم سفیرو
کہ دِکھنے لگے ہیں آثارِ مدینہ
یہاں پھول کھل کے بکھرتے نہیں ہیں
خزاں سے مبرا بہارِ مدینہ
فلک جسکی چوٹی پہ بوسہ کناں ہے
ہے کتنا بلند وہ مینارِ مدینہ
اِسے نارِ دوزخ جلائے گی کیسے
ہے محبوؔب بھی خاکسارِ مدینہ
دلوں کی ہے تسکیں دیارِ مدینہ
حالیہ پوسٹیں
- سر بزم جھومتا ہے سر عام جھومتا ہے
- شاہِ کونین کی ہر ادا نور ہے
- مبارک ہو وہ شہ پردہ سے باہر آنے والا ہے
- وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں
- نہ کلیم کا تصور نہ خیالِ طور سینا
- خاک سورج سے اندھیروں کا ازالہ ہوگا
- چشمِ دل چاہے جو اَنوار سے ربط
- اب میری نگاہوں میں جچتا نہیں کوئی
- مرحبا عزت و کمالِ حضور
- خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا
- خوب نام محمد ھے اے مومنو
- سرکار دو عالم کے رخ پرانوار کا عالم کیا ہوگا
- فلک پہ دیکھا زمیں پہ دیکھا عجیب تیرا مقام دیکھا
- دعا
- اشارے سے چاند چیر دیا چھپے ہوئے خور کو پھیر لیا
- آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
- طیبہ دیاں گلاں صبح و شام کریے
- ہو ورد صبح و مسا لا الہ الا اللہ
- میں کہاں اور تیری حمد کا مفہوم کہاں
- کہتے ہیں عدی بن مسافر