ترا ظہور ہوا چشمِ نور کی رونق
ترا ہی نور ہے بزمِ ظہور کی رونق
رہے نہ عفو مںچ پھر ایک ذرّہ شک باقی
جو اُن کی خاکِ قدم ہو قبور کی رونق
نہ فرش کا یہ تجمل نہ عرش کا یہ جمال
فقط ہے نور و ظہورِ حضور کی رونق
تمہارے نور سے روشن ہوئے زمنی و فلک
ییہ جمال ہے نزدیک و دُور کی رونق
زبانِ حال سے کہتے ہںد نقشِ پا اُن کے
ہمںن ہںے چہرۂ غلمان و حور کی رونق
ترے نثار ترا ایک جلوۂ رنگںح
بہارِ جنت و حور و قصور کی رونق
ضاا زمنو و فلک کی ہے جس تجلّی سے
الٰہی ہو وہ دلِ ناصبور کی رونق
ییٰ فروغ تو زیبِ صفا و زینت ہے
ییٰ ہے حسن تجلّی و نور کی رونق
حضور ترتہ و تاریک ہے یہ پتھر دل
تجلّیوں سے ہوئی کوہِ طور کی رونق
سجی ہے جن سے شبستانِ عالمِ امکاں
وہی ہں مجلسِ روزِ نشور کی رونق
کریں دلوںکومنورسراج(۱)کے جلوے
فروغِ بزمِ عوارف ہو نور (۲) کی رونق
دعا خدا سے غمِ عشقِ مصطفےٰ کی ہے
حسنؔ یہ غم ہے نشاط و سُرور کی رونق

ترا ظہور ہوا چشمِ نور کی رونق
حالیہ پوسٹیں
- تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا
- خوشی سب ہی مناتے ہیں میرے سرکار آتے ہیں
- نصیب آج اپنے جگائے گئے ہیں
- کیوں کرہم اہلِ دل نہ ہوں دیوانۂ رسولؐ
- کون کہتا ہے کہ زینت خلد کی اچھی نہیں
- دلوں کی ہے تسکیں دیارِ مدینہ
- اﷲ سے کیا پیار ہے عثمانِ غنی کا
- اپنی رحمت کے سمندر میں اُتر جانے دے
- مرحبا عزت و کمالِ حضور
- تو سب کا رب سب تیرے گدا
- دل رہ گیا ہے احمدِ مختار کی گلی میں
- کدی میم دا گھونگھٹ چا تے سہی
- حلقے میں رسولوں کے وہ ماہِ مدنی ہے
- توانائی نہیں صدمہ اُٹھانے کی ذرا باقی
- کہتے ہیں عدی بن مسافر
- مجھے در پہ پھر بلانا مدنی مدینے والے
- تم بات کرو ہونہ ملاقات کرو ہو
- بڑی مشکل یہ ہے جب لب پہ تیرا ذکر آتا ہے
- کس نے غنچوں کو نازکی بخشی
- جانبِ مغرب وہ چمکا آفتاب