رکتا نہیں ہرگز وہ اِدھر باغِ ارم سے
وابستہ ہو جو آپ کے دامانِ کرم سے
للہ! کرم کیجیے، سرکارِ مدینہ!
دل ڈوب رہا ہے مِرا فرقت کے اَلم سے
آلامِ زمانہ کا بھلا اس میں گذر کیا
آباد ہے جو دل شہہِ خوباں کے اَلم سے
لب پر ہو دُرود اور ہوں گنبد پہ نگاہیں
ایسے میں بُلاوا مِرا آجائے عدم سے
منظور نہیں ہے کہ وہ پامالِ جبیں ہو
یوں سجدہ کرایا نہ درِ پاک پہ ہم سے
دیدار کی اُمّید نہ ہوتی جو سرِ حشر
بیدار نہ ہوتے کبھی ہم خوابِ عدم سے
بیٹھے ہیں یہاں چھوڑ کے نیرنگیِ عالم
ہم کو نہ اٹھا حشر درِ شاہِ امم سے
دیکھو میری آنکھوں سے درِ شاہِ امم کو
آتی ہے صدا یہ در و دیوارِ حرم سے
یارب! دلِ تحسیؔں کی بھی بر آئے تمنّا
آجائے بُلاوا درِ سرکارِ کرم سے
رکتا نہیں ہرگز وہ اِدھر باغِ ارم سے
حالیہ پوسٹیں
- طور نے تو خوب دیکھا جلوۂ شان جمال
- پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زار ہم
- فلک کے نظارو زمیں کی بہارو سب عیدیں مناؤ حضور آ گئے ہیں
- تیری شان پہ میری جان فدا
- مدینہ میں ہے وہ سامانِ بارگاہِ رفیع
- ہے پاک رُتبہ فکر سے اُس بے نیاز کا
- خدا کی عظمتیں کیا ہیں محمد مصطفی جانیں
- پھر اٹھا ولولۂ یادِ مغیلانِ عرب
- آہ جاتی ہے فلک پر رحم لانے کے لئے
- پڑے مجھ پر نہ کچھ اُفتاد یا غوث
- سب سے افضل سب سے اعظم
- کیوں کرہم اہلِ دل نہ ہوں دیوانۂ رسولؐ
- مثلِ شبّیر کوئی حق کا پرستار تو ہو
- چاند تاروں نے پائی ہے جس سے چمک
- عاصیوں کو دَر تمہارا مل گیا
- نور کس کا ہے چاند تاروں میں
- سرور کہوں کہ مالک و مولیٰ کہوں تجھے
- کبھی ان کی خدمت میں جا کے تودیکھو
- ہم تمہارے ہوکے کس کے پاس جائیں
- عکسِ روئے مصطفے سے ایسی زیبائی ملی