توانائی نہیں صدمہ اُٹھانے کی ذرا باقی

توانائی نہیں صدمہ اُٹھانے کی ذرا باقی
نہ پوچھو ہائے کیا جاتا رہا کیا رہ گیا باقی

زمانے نے ملائیں خاک میں کیفیتیں ساری
بتا دو گر کسی شے میں رہا ہو کچھ مزا باقی

نہ اب تاثیر مقناطیس حسن خوب رویاں میں
نہ اب دل کش نگاہوں میں رہا دل کھینچنا باقی

نہ جلوہ شاہد گل کا نہ غل فریادِ بلبل کا
نہ فضل جاں فزا باقی نہ باغِ دل کشا باقی

نہ جوبن شوخیاں کرتا ہے اُونچے اُونچے سینوں پر
نہ نیچی نیچی نظروں میں ہے اندازِ حیا باقی



کہاں وہ قصر دل کش اور کہاں وہ دلربا جلسے
نہ اس کا کچھ نشاں قائم نہ اس کا کچھ پتا باقی

کہاں ہیں وہ چلا کرتے تھے جن کے نام کے سکے
نشاں بھی ہے زمانہ میں اب ان کے نام کا باقی

کہاں ہیں وہ کہ جن کے دم سے تھے آباد لاکھوں گھر
خدا شاہد جو ان کی قبر کا بھی ہو پتا باقی

شجاعت اپنے سر پر ڈالتی ہے خاک میداں کی
نہ کوئی صف شکن باقی نہ کوئی سُورما باقی

سحر جا کر اسے دیکھا تو سناٹا نظر آیا
وہ محفل جس میں شب کو تھی نہ تل رکھنے کی جا باقی



نہ کل تک نیند آتی تھی جنہیں بے فرش کل سے کل
نہیں آج ان غریبوں کے گھروں میں بوریا باقی

جنہیں سب جانِ جاں کہتے تھے جن پر جان جاتی تھی
فنا کے ہاتھ سے کَے دن رہی ان کی بقا باقی

مبارک دل مبارک آرزو ہے حکم عنقا میں
نہ اب وہ دل ہی باقی ہے نہ دل کا مدعا باقی

خدا ہی جانے کیا کیا گل ہوئے کس کس طرح مٹی
خبر کی جب خبر پائیں کہ ہو کچھ مبتدا باقی

کسی کو ذکر کرتے بھی نہ دیکھا ان کا عالم میں
زبانِ حال پر شاید ہو کچھ یہ ماجرا باقی



عبث ہم یاد کر کے رو رہے ہیں آج پہلوں کو
ہمیں کل روئیں گے پچھلے اگر ہے یہ فنا باقی

یہ دو آنکھیں ہیں رونا سینکڑوں کو روئیں کس کس کو
یہ اک دل غم بہت پھر غم نہ رہ جائیں گے کیا باقی

یہ مطلب ہے کہ ان باتوں سے مطلب ہی نہ رکھیں ہم
ہمیں کیا مر گیا کوئی کہ کوئی بچ رہا باقی

جو کوئی مر گیا تو حکم ہی سے جان دی اس نے
جو کوئی بچ رہا تو حکم ہی سے بچ رہا باقی

یہ جینا کیا مرے گر آج تو کل دوسرا دن ہے
مریں اس زندگی پر جو رہے بعد فنا باقی

وہ پیاری زندگی کیا ہے یہی اسلام کی دولت
یہ ہے وہ بے بہا نعمت رہے جو دائما باقی

فناے تابِ مہر و ماہ ہے روشن زمانے پر
مگر اس کا اُجالا رات دن ہے ایک سا باقی

یہ سچ ہے ضعف کی حالت میں ہے اِسلام بے شک ہے
مگر اب بھی ہے اس کی اگلی شوکت جا بجا باقی

ابھی بُرجوں کے گرنے کی چلی آتی ہیں آوازیں
ابھی تک کوشک کسریٰ میں ہے وہ زلزلہ باقی



چمکتی ہیں ابھی تک بدر کے میدان میں تیغیں
نگاہوں میں ہے اب تک بجلیوں کا کوندنا باقی

مسلماں قبر میں بھی ہیں فدا صدیق اکبر پر
ابھی تک یہ اَثر ہے حُب یارِ غار کا باقی

ابھی تک خاک کے نیچے بہادر کانپ اٹھتے ہیں
ابھی تک صولت فاروق کا ہے دبدبا باقی

غنی کی شرم کے جلوے مسلمانوں کے دل میں ہیں
مسلمانوں کی آنکھوں میں ہے اب تک وہ حیا باقی

ابھی ہے نعرہاے شیر حق کی گونج کانوں میں
ابھی ہے ہیبت مرحب کش و خیبر کشا باقی

مسلمانوں کی تلواروں نے جو قبضے بٹھائے ہیں
رہے گا ان کا پھل ان باغیوں پر دائما باقی

بیانِ شوکتِ اسلام پورا ہو نہیں سکتا
فنا ہو جائیں گے ہم ذکر یہ رہ جائے گا باقی

مٹائیں شوق سے اسلام کو اسلام کے دشمن
وہ خود مٹ جائیں گے اور یہ رہے گا دائما باقی

اگرچہ اس کی تلواروں نے بے گنتی ہی چھانٹے ہیں
مگر بد خواہ اس کے پھر بھی ہیں بے انتہا باقی



قدم رکھیں تو رکھیں پھونک کر اسلام کے رہرو
ابھی منزل میں ہے کانٹوں کا کھٹکا جا بجا باقی

مٹایا چاہتے ہیں دین کو ایمان کے دشمن
ابھی مر مٹ کے ہیں شیطان سے بے انتہا باقی

کہیں تقلید کے انکار پر سو سو دلیلیں ہیں
کہیں دعویٰ نہ چھوڑیں گے درود و فاتحہ باقی

کہیں پابند دونوں ہاتھ کا رفع یدیں اب تک
کہیں بالجہر آمیں پر ہے فریاد و بُکا باقی

کسی جا بعد مردن خاک کہہ دینا اکابر کو
کہیں توہین قبر انبیا و اولیا باقی

کسی جا یا رسول اللہ پر ہے شرک کا فتویٰ
کہیں کوشش نہ رکھیں ذکر اِستمداد کا باقی

کہیں تسلیم پر شش مثل کے انکار سے منکر
کہیں تفہیم پر امکانِ کذبِ کبریا باقی

طریقِ ذکر محبوبانِ حق پر حجتیں قائم
جوازِ محفل میلاد پر چون و چرا باقی

لڑے جاتے ہیں مرغے پر کٹے مرتے ہیں بکرے پر
ذرا دیکھیں تو ہے ایماں کا بھی کچھ پتا باقی

انھیں بیکار باتوں پر جھگڑ کر یہ ہوا حاصل
بجائے دین و ملت صرف جھگڑا رہ گیا باقی

یہاں تک باغیوں نے فرع میں شاخیں نکالی ہیں
کہ اُن کی اصل میں اَب کچھ نہیں غیر از خطا باقی

تبرّے کی کہیں بوچھار یارانِ پیمبر پر
کہیں آلِ نبی سے ہے تعلق رنج کا باقی

یزید اس کام کو اِک سال کر کے نار میں پہنچا
یہاں ہے سینکڑوں سالوں سے نقل کربلا باقی



وہ پردیسی مسافر تخت سے ان کو غرض مطلب
الٰہی پھر نمونہ ہے یہ کس کے تخت کا باقی

یہ تاشے باجے کب تھے سید مظلوم کی جانب
کہ جن کا جاہلوں میں ہے ابھی تک پیٹنا باقی

کہاں تک فتح ظالم کی بنائی جائے گی صورت
شہِ مظلوم سے کینہ رہے گا تا کجا باقی

محبت کا ہے دعویٰ آل سے پر دیکھنا یہ ہے
عداوت کا دقیقہ کوئی ان سے رہ گیا باقی

توہب اور تشیع سے ہوا جو کچھ ہوا لیکن
نہ رکھا نیچریت نے ذرا تسمہ لگا باقی

اگر دعوی مرا محتاجِ حجت ہے تو سن لیجے
کلام اُس کا نہیں جس کو غمِ روزِ جزا باقی


حالیہ پوسٹیں


Leave a comment