غم ہو گئے بے شمار آقا
بندہ تیرے نثار آقا
بگڑا جاتا ہے کھیل میرا
آقا آقا سنوار آقا
منجدھار پہ آکے ناﺅ ٹوٹی
دے ہاتھ کہ ہوں میں پار آقا
ٹوٹی جاتی ہے پیٹھ میری
للہ یہ بوجھ اتار آقا
ہلکا ہے اگر ہمارا پلّہ
بھاری ہے ترا وقار آقا
مجبور ہیں ہم تو فکر کیا ہے
تم کو تو ہے اختیار آقا
میں دور ہوں تو تم ہو مرے پاس
سن لو میری پکار آقا
مجھ سا کوئی غم زدہ نہ ہو گا
تم سا نہی غم گسار آقا
گرداب میں پڑ گئی ہے کشتی
ڈوبا ڈوبا، اتار آقا
تم وہ کہ کرم کو ناز تم سے
میں وہ کہ بدی کو عار آقا
پھر منہ نہ پڑے کبھی خزاں کا
دے دے ایسی بہار آقا
جس کی مرضی خدا نہ ٹالے
میرا ہے وہ نامدار آقا
ہے ملکِ خدا پہ جس کا قبضہ
میرا ہے وہ کامگار آقا
سویا کیے نابکار بندے
رویا کے زار زار آقا
کیا بھول ہے ان کے ہوتے کہلائیں
دنیا کے تاجدار آقا
ان کے ادنیٰ گدا پہ مٹ جائیں
ایسے ایسے ہزار آقا
بے ابر کرم کے میرے دھبے
لا تغسلھا البحار آقا
اتنی رحمت رضا پہ کر لو
لا یقروبہ البوار آقا

غم ہو گئے بے شمار آقا
حالیہ پوسٹیں
- تم پر میں لاکھ جان سے قربان یا رسول
- طوبےٰ میں جو سب سے اونچی نازک سیدھی نکلی شاخ
- پڑے مجھ پر نہ کچھ اُفتاد یا غوث
- نہ کہیں سے دُور ہیں مَنزلیں نہ کوئی قریب کی بات ہے
- بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کا
- اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم
- سرکار دو عالم کے رخ پرانوار کا عالم کیا ہوگا
- ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے
- نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
- کیوں نہ اِس راہ کا ایک ایک ہو ذرّہ روشن
- فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر ، ہم بھی بے بس نہیں ، بے سہارا نہیں
- حدودِ طائر سدرہ، حضور جانتے ہیں
- کیا کریں محفل دلدار کو کیوں کر دیکھیں
- چشمِ دل چاہے جو اَنوار سے ربط
- کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے
- آج اشک میرے نعت سنائیں تو عجب کیا
- سرور کہوں کہ مالک و مولیٰ کہوں تجھے
- نگاہِ لطف کے اُمیدوار ہم بھی ہیں
- صانع نے اِک باغ لگایا
- میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے