نہیں خوش بخت محتاجانِ عالم میں کوئی ہم سا
ملا تقدیر سے حاجت روا فاروقِ اعظم سا
ترا رشتہ بنا شیرازۂ جمعیتِ خاطر
پڑا تھا دفترِ دینِ کتابُ اﷲ برہم سا
مراد آئی مرادیں ملنے کی پیاری گھڑی آئی
ملا حاجت رَوا ہم کو درِ سلطانِ عالم سا
ترے جود و کرم کا کوئی اندازہ کرے کیوں کر
ترا اِک اِک گدا فیض و سخاوت میں ہے حاتم سا
خدارا مہر کر اے ذرّہ پرور مہر نورانی
سیہ بختی سے ہے روزِ سیہ میرا شبِِ غم سا
تمہارے دَر سے جھولی بھر مرادیں لے کے اُٹھیں گے
نہ کوئی بادشاہ تم سا نہ کوئی بے نوا ہم سا
فدا اے اُمّ کلثوم آپ کی تقدیر یاوَر کے
علی بابا ہوا ، دُولھا ہوا فاروق اکرم سا
غضب میں دشمنوں کی جان ہے تیغِ سر افگن سے
خروج و رفض کے گھر میں نہ کیوں برپا ہو ماتم سا
شیاطیں مضمحل ہیں تیرے نامِ پاک کے ڈر سے
نکل جائے نہ کیوں رفّاض بد اَطوار کا دم سا
منائیں عید جو ذی الحجہ میں تیری شہادت کی
الٰہی روز و ماہ و سن اُنھیں گزرے محرم سا
حسنؔ در عالمِ پستی سرِ رفعت اگر داری
بَیا فرقِ اِرادت بر درِ فاروقِ اعظم سا

نہیں خوش بخت محتاجانِ عالم میں کوئی ہم سا
حالیہ پوسٹیں
- سچ کہواں رب دا جہان بڑا سوھنا اے
- جس نے مدینے جانڑاں کر لو تیاریاں
- یہ دنیا اک سمندر ہے مگر ساحل مدینہ ہے
- محبوبِ کبریا سے میرا سلام کہنا
- اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم
- ہم تمہارے ہوکے کس کے پاس جائیں
- تیری جالیوں کے نیچے تیری رحمتوں کے سائے
- کیا مژدۂ جاں بخش سنائے گا قلم آج
- خراب حال کیا دِل کو پُر ملال کیا
- کچھ غم نہیں اگرچہ زمانہ ہو بر خلاف
- سر محشر شفاعت کے طلب گاروں میں ہم بھی ہیں
- وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک
- نور کس کا ہے چاند تاروں میں
- مل گئی دونوں عالم کی دولت ہاں درِ مصطفیٰ مل گیا ہے
- سن لو خدا کے واسطے اپنے گدا کی عرض
- یہ رحمت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
- تیری شان کیا شاہِ والا لکھوں
- کیا بتاؤں کہ شہرِ نبی میں پہنچ جانا ہے کتنی سعادت
- جو ہوچکا ہے جو ہوگا حضور جانتے ہیں
- تم پر میں لاکھ جان سے قربان یا رسول