کہتے ہیں عدی بن مسافر

کہتے ہیں عدی بن مسافر
تھا مجلسِ وعظ میں مَیں حاضر

ناگاہ ہوا شروع باراں
ہونے لگی انجمن پریشاں

دیکھے جو یہ برہمی کے اَطوار
سر سوئے فلک اُٹھا کے اک بار

کہنے لگے اس طرح وہ ذیشاں
میں تو کروں جمع تُو پریشاں

فوراً وہ مقام چھوڑ کر ابر
تھا قطرہ فشاں اِدھر اُدھر برابر

اللہ رے جلالِ قادریّت
قربان کمالِ قادریّت

اے حاکم و بادشاہِ عالم
اے داد رس و پناہِ عالم

گِھر آئے ہیں غم کے کالے بادل
چھائے ہیں اَلم کے کالے بادل

سینہ میں جگر ہے پارہ پارہ
للہ! ادھر بھی اک اِشارہ


حالیہ پوسٹیں


Leave a comment