انکے درِ نیاز پر سارا جہاں جھکا ہوا
گنبدِ آبگینہ رنگ آسماں جھکا ہوا
انکی نگاہِ ناز سے کوئی بھی نہ بچ سکا
دیکھ کے حُسنِ شعلہ رخ ہے باغباں جھکا ہوا
ادب گہہِ حضور میں شجر و حجر کی بات کیا
ہے مہر و مہ و مشتری کا کارواں جھکا ہوا
ڈالی جو عشق کی نظر عقل و خرد ہَوا ہوئے
ہر ایک ان کی بزم میں تھا نا گہاں جھکا ہُوا
گلی میں انکی سر کے بل چلو عزیز حاجیو
ہے انکے در پہ اک ہجومِ عاشقاں جھکا ہوا
انکی سخا انکی عطا ہے بے بہا بے انتہا
بھکاری بن کے در پہ ہے زمن زماں جھکا ہوا
ہاں سب کا مولا ہے نبی ہے سب کا پیشوا نبی
ہے ان کے در پہ خلق کا پیر و جواں جھکا ہوا
انکے درِ نیاز پر سارا جہاں جھکا ہوا
حالیہ پوسٹیں
- جب سے ان کی گلی کا گدا ہو گیا
- عارضِ شمس و قمر سے بھی ہیں انور ایڑیاں
- لطف ان کا عام ہو ہی جائے گا
- مجھے بھی مدینے بلا میرے مولا کرم کی تجلی دکھا میرے مولا
- سحابِ رحمتِ باری ہے بارھویں تاریخ
- یادِ وطن ستم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں
- تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہو گا
- حاجیو! آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو
- بڑی مشکل یہ ہے جب لب پہ تیرا ذکر آتا ہے
- ذکرِ احمد میں گزری جو راتیں حال انکا بتایا نہ جائے
- تنم فرسودہ، جاں پارہ ز ہجراں، یا رسول اللہ ۖ
- آکھیں سونہڑے نوں وائے نی جے تیرا گزر ہو وے
- میرے نبی پیارے نبی ؑ ہے مرتبہ بالا تیرا
- طیبہ سارے جگ توں جدا سوھنیا
- یا نبی نظرِ کرم فرمانا اے حسنین کے نانا
- وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
- میں مدینے چلا میں مدینے چلا
- طلسماتِ شب بے اثر کرنے والا
- اس کرم کا کروں شکر کیسے ادا جو کرم مجھ پہ میرے نبی کر دیا
- عاصیوں کو دَر تمہارا مل گیا