شمعِ دیں کی کیسے ہوسکتی ہے مدہم روشنی
بزمِ طیبہ میں برستی ہے جھما جھم روشنی
خاکِ پائے شاہ کو سرمہ بنالیتا ہوں میں
میری آنکھوں میں کبھی ہوتی ہے جب کم روشنی
نورِ مطلق کے قریں بے ساختہ پہنچے حضور
روشنی سے کس قدر ہوتی ہے محرم روشنی
نقشِ پائے شہہ کی ہلکی سی جھلک ہے کارگر
کیسے ہوسکتی ہے مہر و مہ کی مدہم روشنی
پانی پانی ہو ابھی یاد شہ کل میں صبیح
میرے اشکوں کی جو دیکھے چاہِ زم زم روشنی
شمعِ دیں کی کیسے ہوسکتی ہے مدہم روشنی
حالیہ پوسٹیں
- میں لب کشا نہیں ہوں اور محو التجا ہوں
- ہر لب پہ ہے تیری ثنا ، ہر بزم میں چرچا ترا
- بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کا
- یا محمد نورِ مجسم یا حبیبی یا مولائی
- تو شمع رسالت ہے عالم تیرا پروانہ
- طیبہ کی ہے یاد آئی اب اشک بہانے دو
- کس نے غنچوں کو نازکی بخشی
- اﷲ سے کیا پیار ہے عثمانِ غنی کا
- چمن دلوں کے کھلانا، حضور جانتے ہیں
- مئے حُبِّ نبی سے جس کا دل سرشار ہو جائے
- بندہ قادر کا بھی قادر بھی ہے عبدالقادر
- دل خون کے آنسو روتا ہے اے چارہ گرو کچھ مدد کرو
- ہے کلامِ الٰہی میں شمس و ضحی ترے چہرہ ءِ نور فزا کی قسم
- صبح طیبہ میں ہوئی بٹتا ہے باڑا نور کا
- کس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے
- نبی اللہ نبی اللہ جپدے رہوو
- پوچھتے کیا ہو مدینے سے میں کیا لایا ہوں
- تیرے در سے تیری عطا مانگتے ہیں
- جتنا مرے خدا کو ہے میرا نبی عزیز
- کیا بتاؤں کہ شہرِ نبی میں پہنچ جانا ہے کتنی سعادت