اپنی نسبت سے میں کچھ نہیں ہوں، اس کرم کی بدولت بڑا ہوں
اُن کے ٹکڑوں سے اعزاز پاکر ، تاجداروں کی صف میںکھڑا ہوں
اس کرم کو مگر کیا کہو گے، میں نے مانا میں سب سے برا ہوں
جو بروں کو سمیٹے ہوئے ہیں، اُن کے قدموں میں بھی پڑا ہوں
دیکھنے والو مجھ کو نہ دیکھو، دیکھنا ہے اگر تو یہ دیکھو
کس کے دامن سے وابستہ ہوں میں، کون والی ہے ، کس کا گدا ہوں
یا نبی ! اپنے غم کی کہانی ، کہہ سکوں گا نہ اپنی زبانی
بِن کہے ہی میری لاج رکھ لو ، میں سسکتی ہوئی التجا ہوں
دیکھتا ہوں جب انکی عطائیں، بھول جاتا ہوں اپنی خطائیں
سرندامت سے اٹھتا نہیں ہے، جب میں اپنی طرف دیکھتا ہوں
شافعِ مُذنباں کے کرم نے، لاج رکھ لی میرے کھوٹے پن کی
نسبتوں کا کرم ہے کہ خالد ، کھوٹا ہوتے ہوئے بھی کھرا ہوں
اپنی نسبت سے میں کچھ نہیں ہوں، اس کرم کی بدولت بڑا ہوں

اپنی نسبت سے میں کچھ نہیں ہوں، اس کرم کی بدولت بڑا ہوں
حالیہ پوسٹیں
- دل ٹھکانہ میرے حضور کا ہے
- سر تا بقدم ہے تن سلطان زمن پھول
- نصیب آج اپنے جگائے گئے ہیں
- لَنْ تَرَانِیْ نصیبِ موسیٰ تھی
- پھر کرم ہو گیا میں مدینے چلا
- تیرا کھاواں میں تیرے گیت گاواں یارسول اللہ
- اشارے سے چاند چیر دیا چھپے ہوئے خور کو پھیر لیا
- کون ہو مسند نشیں خاکِ مدینہ چھوڑ کر
- عشق کے رنگ میں رنگ جائیں جب افکار تو کھلتے ہیں
- اللہ دے حضور دی اے گل وکھری
- یہ حقیقت ہے کہ جینا وہی جینا ہوگا
- سرور کہوں کہ مالک و مولیٰ کہوں تجھے
- خدا کے قرب میں جانا حضور جانتے ہیں
- در پیش ہو طیبہ کا سفر کیسا لگے گا
- روک لیتی ہے آپ کی نسبت تیر جتنے بھی ہم پہ چلتے ہیں
- بارہ ربیع الاول كے دن ابرِ بہارا چھائے
- یا رب میری آہوں میں اثرہے کہ نہیں ہے
- کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمھاری واہ واہ
- دل رہ گیا ہے احمدِ مختار کی گلی میں
- کیا کریں محفل دلدار کو کیوں کر دیکھیں