مدینہ میں ہے وہ سامانِ بارگاہِ رفیع
عروج و اَوج ہیں قربانِ بارگاہِ رفیع
نہیں گدا ہی سرِ خوانِ بارگاہِ رفیع
خلیل بھی تو ہیں مہمانِ بارگاہِ رفیع
بنائے دونوں جہاں مجرئی اُسی دَر کے
کیا خدا نے جو سامانِ بارگاہِ رفیع
زمینِ عجز پہ سجدہ کرائیں شاہوں سے
فلک جناب غلامانِ بارگاہِ رفیع
ہے انتہاے علا ابتداے اَوج یہاں
ورا خیال سے ہے شانِ بارگاہِ رفیع
کمند رشتۂ عمر خضر پہنچ نہ سکے
بلند اِتنا ہے ایوانِ بارگاہِ رفیع
وہ کون ہے جو نہیں فیضیاب اِس دَر سے
سبھی ہیں بندۂ احِسانِ بارگاہِ رفیع
نوازے جاتے ہیں ہم سے نمک حرام غلام
ہماری جان ہو قربانِ بارگاہِ رفیع
مطیع نفس ہیں وہ سرکشانِ جن و بشر
نہیں جو تابعِ فرمانِ بارگاہِ رفیع
صلاے عام ہیں مہماں نواز ہیں سرکار
کبھی اٹھا ہی نہیں خوانِ بارگاہِ رفیع
جمالِ شمس و قمر کا سنگار ہے شب و روز
فروغِ شمسۂ ایوانِ بارگاہِ رفیع
ملائکہ ہیں فقط دابِ سلطنت کے لیے
خدا ہے آپ نگہبانِ بارگاہِ رفیع
حسنؔ جلالتِ شاہی سے کیوں جھجکتا ہے
گدا نواز ہے سلطانِ بارگاہِ رفیع

مدینہ میں ہے وہ سامانِ بارگاہِ رفیع
حالیہ پوسٹیں
- فلک پہ دیکھا زمیں پہ دیکھا عجیب تیرا مقام دیکھا
- زمین و زماں تمہارے لئے ، مکین و مکاں تمہارے لیے
- پھر کے گلی گلی تباہ ٹھوکریں سب کی کھائے کیوں
- اینویں تے نیئیں دل دا قرار مُک چلیا
- وہ کمالِ حُسنِ حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں
- حُضور! آپ کا رُتبہ نہ پا سکا کوئی
- کوئی سلیقہ ہے آرزو کا ، نہ بندگی میری بندگی ہے
- زمیں میلی نہیں ہوتی زمن میلا نہیں ہوتا
- دیس عرب کے چاند سہانے رکھ لو اپنے قدموں میں
- کیا مژدۂ جاں بخش سنائے گا قلم آج
- روک لیتی ہے آپ کی نسبت تیر جتنے بھی ہم پہ چلتے ہیں
- منظر فضائے دہر میں سارا علی کا ہے
- احمد کہُوں ک ہحامدِ یکتا کہُوں تجھے
- اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے
- جانبِ مغرب وہ چمکا آفتاب
- آج اشک میرے نعت سنائیں تو عجب کیا
- جب سے ان کی گلی کا گدا ہو گیا
- مبارک ہو وہ شہ پردہ سے باہر آنے والا ہے
- تمھارے در سے اٹھوں میں تشنہ زمانہ پوچھے تو کیا کہوں گا
- حاجیو! آؤ شہنشاہ کا روضہ دیکھو