نہ زر نہ ہی جاہ و حشم کی طلب ہے
کریم آقا تیرے کرم کی طلب ہے
مدینے میں مِل جائے چھوٹی سی کُٹیا
نہ جنت نہ لوح و قلم کی طلب ہے
میری عیب پوشی سدا کرتے رہنا
کبھی جو نہ ٹوٹے بھرم کی طلب ہے
مصائب سے ایمان مضبوط تر ہو
ہاں شیرِ خدا کے عزم کی طلب ہے
تیری یاد میں جو ہمیشہ رہے نم
مجھے شاہا ایسی چشم کی طلب ہے
جو میرے عشق کو جِلا بخش دیوے
میرے دل کو ایسے ستم کی طلب ہے
میرے جُرم و عصیاں ہیں ان گِنت مولا
تیری بارگاہ سے رحم کی طلب ہے
جو غفلت کی نیندوں سے دل کو جگا دے
مجھے اس نگاہِ کرم کی طلب ہے
نہ زر نہ ہی جاہ و حشم کی طلب ہے
حالیہ پوسٹیں
- تم بات کرو ہونہ ملاقات کرو ہو
- تھی جس کے مقدر میں گدائی ترے در کی
- الٰہی تیری چوکھٹ پر بھکاری بن کے آیا ہوں
- سوہنا اے من موہنا اے آمنہ تیرا لال نی
- تمھارے در سے اٹھوں میں تشنہ زمانہ پوچھے تو کیا کہوں گا
- میری زندگی کا تجھ سے یہ نظام چل رہا ہے
- رب کی بخشش مل جائیگی عاصیو اتنا کام کرو
- اُجالی رات ہوگی اور میدانِ قُبا ہوگا
- سر تا بقدم ہے تن سلطان زمن پھول
- کچھ غم نہیں اگرچہ زمانہ ہو بر خلاف
- غلام حشر میں جب سید الوریٰ کے چلے
- جب سے ان کی گلی کا گدا ہو گیا
- میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے
- خوشبوے دشتِ طیبہ سے بس جائے گر دماغ
- پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زار ہم
- اگر چمکا مقدر خاک پاے رہرواں ہو کر
- رب دیاں رحمتاں لٹائی رکھدے
- ذکرِ احمد میں گزری جو راتیں حال انکا بتایا نہ جائے
- رونقِ بزمِ جہاں ہیں عاشقانِ سوختہ
- تیرے ہوتے جنم لیا ہوتا