نہ زر نہ ہی جاہ و حشم کی طلب ہے
کریم آقا تیرے کرم کی طلب ہے
مدینے میں مِل جائے چھوٹی سی کُٹیا
نہ جنت نہ لوح و قلم کی طلب ہے
میری عیب پوشی سدا کرتے رہنا
کبھی جو نہ ٹوٹے بھرم کی طلب ہے
مصائب سے ایمان مضبوط تر ہو
ہاں شیرِ خدا کے عزم کی طلب ہے
تیری یاد میں جو ہمیشہ رہے نم
مجھے شاہا ایسی چشم کی طلب ہے
جو میرے عشق کو جِلا بخش دیوے
میرے دل کو ایسے ستم کی طلب ہے
میرے جُرم و عصیاں ہیں ان گِنت مولا
تیری بارگاہ سے رحم کی طلب ہے
جو غفلت کی نیندوں سے دل کو جگا دے
مجھے اس نگاہِ کرم کی طلب ہے
نہ زر نہ ہی جاہ و حشم کی طلب ہے
حالیہ پوسٹیں
- یہ چاند ستارے بھی دیتے ہیں خراج اُن کو
- ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا
- مدینہ میں ہے وہ سامانِ بارگاہِ رفیع
- جذب و جنوں میں انکی بابت جانے کیا کیا بول گیا
- جو ہوچکا ہے جو ہوگا حضور جانتے ہیں
- نبی اللہ نبی اللہ جپدے رہوو
- رُخ دن ہے یا مہرِ سما ، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
- کون کہتا ہے کہ زینت خلد کی اچھی نہیں
- اسیروں کے مشکل کشا غوث اعظم
- دلوں میں اجالا تیرے نام سے ہے
- ترے دَر پہ ساجد ہیں شاہانِ عالم
- کبھی ان کی خدمت میں جا کے تودیکھو
- نور کس کا ہے چاند تاروں میں
- میں کہاں اور تیری حمد کا مفہوم کہاں
- زمین و زماں تمہارے لئے ، مکین و مکاں تمہارے لیے
- انکے درِ نیاز پر سارا جہاں جھکا ہوا
- گزرے جس راہ سے وہ سیدِ والا ہو کر
- نہ کہیں سے دُور ہیں مَنزلیں نہ کوئی قریب کی بات ہے
- نبی سَروَرِ ہر رسول و ولی ہے
- کہاں میں بندۂ عاجز کہاں حمد و ثنا تیری