نہ زر نہ ہی جاہ و حشم کی طلب ہے
کریم آقا تیرے کرم کی طلب ہے
مدینے میں مِل جائے چھوٹی سی کُٹیا
نہ جنت نہ لوح و قلم کی طلب ہے
میری عیب پوشی سدا کرتے رہنا
کبھی جو نہ ٹوٹے بھرم کی طلب ہے
مصائب سے ایمان مضبوط تر ہو
ہاں شیرِ خدا کے عزم کی طلب ہے
تیری یاد میں جو ہمیشہ رہے نم
مجھے شاہا ایسی چشم کی طلب ہے
جو میرے عشق کو جِلا بخش دیوے
میرے دل کو ایسے ستم کی طلب ہے
میرے جُرم و عصیاں ہیں ان گِنت مولا
تیری بارگاہ سے رحم کی طلب ہے
جو غفلت کی نیندوں سے دل کو جگا دے
مجھے اس نگاہِ کرم کی طلب ہے

نہ زر نہ ہی جاہ و حشم کی طلب ہے
حالیہ پوسٹیں
- میری زندگی کا تجھ سے یہ نظام چل رہا ہے
- دل میں بس گئے یارو طیبہ کے نظارے ہیں
- میں کس منہ سے مانگوں دعائے مدینہ
- پڑے مجھ پر نہ کچھ اُفتاد یا غوث
- پل سے اتارو ، راہ گزر کو خبر نہ ہو
- ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیئے ہیں
- ذرے اس خاک کے تابندہ ستارے ہونگے
- خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا
- ذاتِ والا پہ بار بار درود
- چاند تاروں نے پائی ہے جس سے چمک
- کعبے پہ پڑی جب پہلی نظر، کیا چیز ہے دنیا بھول گیا
- سر تا بقدم ہے تن سلطان زمن پھول
- یا نبی نظرِ کرم فرمانا اے حسنین کے نانا
- آج اشک میرے نعت سنائیں تو عجب کیا
- مدینے کی جانب یہ عاصی چلا ہے
- سب کچھ ہے خدا،اُس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
- زمین و زماں تمہارے لئے ، مکین و مکاں تمہارے لیے
- یا محمد ہے سارا جہاں آپ کا
- راتیں بھی مدینے کی باتیں بھی مدینے کی
- وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں