رشک کیوں نہ کروں انکی قسمت پہ میں جو مدینے کی گلیوں میں گھوم آئے ہیں
آگِ دوزخ جلائے گی کیسے انھیں جو طیبہ کے ذروں کو چوم آئے ہیں
ان گلوں کی شگفتہ جبیں کی قسم حق نے جن کو جگہ اپنی رحمت میں دی
اس جہاں کی فضا انکو بھاتی نہیں جو باغِ مدینہ میں گھوم آئے ہیں
جرم ہم نے کئے ظلم ہم نے کئے اپنی جانوں پہ آقا بچا لو ہمیں
سر شرم سے جھکائے ہوئے آئے ہیں تیرے در پہ ہو مغموم آئے ہیں
دو سہارا ہمیں لو خدارا ہمیں اپنے دامنِ رحمت میں شاہِ رُسل
توڑ زنجیریں اپنی ہوس کی یہاں آج شیطان کے محکوم آئے ہیں
جرم اپنے بہت ہیں مگر یا نبی تیرے عفو و کرم کی بھی حد ہی نہیں
اِک کرم کی نظر عاصی محبؔوب پر ہم بدلنے یہاں مقسوم آئے ہیں
رشک کیوں نہ کروں انکی قسمت پہ میں
حالیہ پوسٹیں
- جذب و جنوں میں انکی بابت جانے کیا کیا بول گیا
- مرا پیمبر عظیم تر ہے
- خوشبوے دشتِ طیبہ سے بس جائے گر دماغ
- وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک
- خاک سورج سے اندھیروں کا ازالہ ہوگا
- ہر دم تیری باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
- بارہ ربیع الاول كے دن ابرِ بہارا چھائے
- تو شاہِ خوباں، تو جانِ جاناں، ہے چہرہ اُم الکتاب تیرا
- یہ سینہ اور یہ دل دوسرا معلوم ہوتا ہے
- خوب نام محمد ھے اے مومنو
- طیبہ سارے جگ توں جدا سوھنیا
- دشتِ مدینہ کی ہے عجب پُر بہار صبح
- چھائے غم کے بادل کالے
- تسکینِ دل و جاں ہیں طیبہ کے نظارے بھی
- زہے عزت و اعتلائے محمد
- سُن کملے دِلا جے توں چاھنا ایں وسنا
- رُبا عیات
- ذکرِ احمد میں گزری جو راتیں حال انکا بتایا نہ جائے
- کبھی خزاں کبھی فصلِ بہار دیتا ہے
- یادِ وطن ستم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں