مدینے کی جانب یہ عاصی چلا ہے
کرم کملی والے کا کتنا بڑا ہے
میں کھو جاؤں طیبہ کی گلیوں میں جا کے
یہی آرزو ہے یہی اِک دعا ہے
مجھے اپنی رحمت کے سائے میں لے لو
میرا ہر عمل آقا پُر از خطا ہے
زمانے میں چرچے ہیں تیری سخا کے
تو مجھ جیسے لاکھوں کا اِک آسرا ہے
اشاروں پہ تیرے چلیں چاند سورج
خدا سے جدا ہو یہ کامِ خدا ہے
تعین کریں اختیارِ نبی کا
حماقت نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے
مدینے کی جانب یہ عاصی چلا ہے
حالیہ پوسٹیں
- پھر دل میں بہاراں کے آثار نظر آئے
- اے کہ ترے جلال سے ہل گئی بزمِ کافری
- تیری شان پہ میری جان فدا
- دل دیاں گلاں میں سناواں کس نوں
- ہر وقت تصور میں مدینے کی گلی ہو
- دل میں ہو یاد تری گوشۂ تنہائی ہو
- تُو کجا من کجا
- کہتے ہیں عدی بن مسافر
- کیا ٹھیک ہو رُخِ نبوی پر مثالِ گل
- خوشبوے دشتِ طیبہ سے بس جائے گر دماغ
- تمھارے در سے اٹھوں میں تشنہ زمانہ پوچھے تو کیا کہوں گا
- خزاں کی شام کو صبحِ بہار تُو نے کیا
- ہم کو اپنی طلب سے سوا چایئے
- سیف الملوک
- سلام ائے صبحِ کعبہ السلام ائے شامِ بت خانہ
- اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا
- اللہ دے حضور دی اے گل وکھری
- چھائے غم کے بادل کالے
- معراج کی شب سدرہ سے وریٰ تھا اللہ اور محبوبِ الہٰ
- احمد کہُوں ک ہحامدِ یکتا کہُوں تجھے