دلوں کی ہے تسکیں دیارِ مدینہ
ہے جنت سے بڑھ کے غبارِ مدینہ
چلو سر کے بل اے میرے ہم سفیرو
کہ دِکھنے لگے ہیں آثارِ مدینہ
یہاں پھول کھل کے بکھرتے نہیں ہیں
خزاں سے مبرا بہارِ مدینہ
فلک جسکی چوٹی پہ بوسہ کناں ہے
ہے کتنا بلند وہ مینارِ مدینہ
اِسے نارِ دوزخ جلائے گی کیسے
ہے محبوؔب بھی خاکسارِ مدینہ

دلوں کی ہے تسکیں دیارِ مدینہ
حالیہ پوسٹیں
- مثلِ شبّیر کوئی حق کا پرستار تو ہو
- اینویں تے نیئیں دل دا قرار مُک چلیا
- خاکِ طیبہ کی اگر دل میں ہو وقعت محفوظ
- رکتا نہیں ہرگز وہ اِدھر باغِ ارم سے
- چاند تاروں نے پائی ہے جس سے چمک
- کچھ غم نہیں اگرچہ زمانہ ہو بر خلاف
- جس کو کہتے ہیں قیامت حشر جس کا نام ہے
- اٹھا دو پردہ دِکھا دو چہرہ، کہ نور باری حجاب میں ہے
- لم یات نطیرک فی نظر، مثل تو نہ شد پیدا جانا
- دل رہ گیا ہے احمدِ مختار کی گلی میں
- بارہ ربیع الاول كے دن ابرِ بہارا چھائے
- رُخ دن ہے یا مہرِ سما ، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
- ساقیا کیوں آج رِندوں پر ہے تو نا مہرباں
- حرزِ جاں ذکرِ شفاعت کیجئے
- خدا کی عظمتیں کیا ہیں محمد مصطفی جانیں
- خدا کی خلق میں سب انبیا خاص
- آکھیں سونہڑے نوں وائے نی جے تیرا گزر ہو وے
- خواجۂ ہند وہ دربار ہے اعلیٰ تیرا
- تنم فرسودہ، جاں پارہ ز ہجراں، یا رسول اللہ ۖ
- تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہو گا