دلوں کی ہے تسکیں دیارِ مدینہ
ہے جنت سے بڑھ کے غبارِ مدینہ
چلو سر کے بل اے میرے ہم سفیرو
کہ دِکھنے لگے ہیں آثارِ مدینہ
یہاں پھول کھل کے بکھرتے نہیں ہیں
خزاں سے مبرا بہارِ مدینہ
فلک جسکی چوٹی پہ بوسہ کناں ہے
ہے کتنا بلند وہ مینارِ مدینہ
اِسے نارِ دوزخ جلائے گی کیسے
ہے محبوؔب بھی خاکسارِ مدینہ

دلوں کی ہے تسکیں دیارِ مدینہ
حالیہ پوسٹیں
- جو ہر شے کی حقیقت ہے جو پنہاں ہے حقیقت میں
- دل پھر مچل رہا ہے انکی گلی میں جاؤں
- تو شمع رسالت ہے عالم تیرا پروانہ
- میں گدائے دیارِ نبی ہوں پوچھیئے میرے دامن میں کیا ہے
- میں تو خود ان کے در کا گدا ہوں
- دل مِرا دنیا پہ شیدا ہو گیا
- کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمھاری واہ واہ
- اﷲ سے کیا پیار ہے عثمانِ غنی کا
- ترے دَر پہ ساجد ہیں شاہانِ عالم
- مدینہ سامنے ہے بس ابھی پہنچا میں دم بھر میں
- تیرے در سے تیری عطا مانگتے ہیں
- کیا کریں محفل دلدار کو کیوں کر دیکھیں
- میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے
- سرور انبیاء کی ہے محفل سجی
- حالِ دل کس کو سنائیں آپ کے ہوتے ہوئے
- چلو دیارِ نبی کی جانب درود لب پر سجا سجا کر
- بے خُود کِیے دیتے ہیں اَندازِ حِجَابَانَہ
- غلام حشر میں جب سید الوریٰ کے چلے
- احمد کہُوں ک ہحامدِ یکتا کہُوں تجھے
- میں کس منہ سے مانگوں دعائے مدینہ