پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفیٰ کہ یوں
کیف کے پر جہاں جلیں کوئی بتائے کیا کہ یوں
قصرِ دَنیٰ کے راز میں عقلیں تو گُم ہیں جیسی ہیں
رُوحِ قدس سے پوچھیے تم نے بھی کچھ سُنا کہ یوں
میں نے کہا کہ جلوۂ اصل میں کس طرح گمیں
صبح نے نورِ مہر میں مٹ کے دکھا دیا کہ یوں
ہائے رے ذوقِ بے خودی دل جو سنبھلنے سا لگا
چھک کے مہک میں پھول کی گرنے لگی صبا کہ یوں
دل کو دے نور و داغِ عشق پھر میں فدا دو نیم کر
مانا ہے سن کے شقِ ماہ آنکھوں سے اب دکھا کہ یوں
دل کو ہے فکر کس طرح مُردے جِلاتے ہیں حضور
اے میں فدا لگا کر ایک ٹھوکر اسے بتا کہ یوں
باغ میں شکرِ وصل تھا ہجر میں ہائے ہائے گل
کام ہے ان کے ذِکر سے خیر وہ یوں ہوا کہ یوں
جو کہے شعر و پاسِ شرع دونوں کا حسن کیوں کر آئے
لا اسے پیشِ جلوۂ زمزمۂ رؔضا کہ یوں

پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفیٰ کہ یوں
حالیہ پوسٹیں
- آمنہ بی بی کے گلشن میں آئی ہے تازہ بہار
- جانبِ مغرب وہ چمکا آفتاب
- اے عشقِ نبی میرے دل میں بھی سما جانا
- انکے درِ نیاز پر سارا جہاں جھکا ہوا
- گلزارِ مدینہ صلِّ علیٰ،رحمت کی گھٹا سبحان اللّٰٰہ
- دل و نگاہ کی دنیا نئی نئی ہوئی ہے
- نور کس کا ہے چاند تاروں میں
- روک لیتی ہے آپ کی نسبت تیر جتنے بھی ہم پہ چلتے ہیں
- سلام ائے صبحِ کعبہ السلام ائے شامِ بت خانہ
- آج اشک میرے نعت سنائیں تو عجب کیا
- عاصیوں کو دَر تمہارا مل گیا
- میں تو پنجتن کا غلام ہوں میں مرید خیرالانام ہوں
- خدا تو نہیں با خدا مانتے ہیں
- عجب کرم شہ والا تبار کرتے ہیں
- نہیں خوش بخت محتاجانِ عالم میں کوئی ہم سا
- وہی جو خالق جہان کا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے
- یہ کہتی تھی گھر گھر میں جا کر حلیمہ
- کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمھاری واہ واہ
- خوشبوے دشتِ طیبہ سے بس جائے گر دماغ
- یا رسول الله تیرے در کی فضاؤں کو سلام