پیغام صبا لائی ہے گلزار نبی سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبی سے
ہر آه گئی عرش پہ یہ آه کی قسمت
ھر اشک پہ اک خلد ہے ہر اشک کی قیمت
تحفہ یہ ملا ہے مجھے سرکار نبی سے
آیا ہے بلاوا مجھے دربار نبی سے
شکر خدا کی آج گھڑی اس سفر کی ہے
جس پر نثار جان فلاح و ظفر کی ہے
گرمی ہے تپ ہے درد ہے کلفت سفر کی ہے
نا شکر یہ تو دیکھ عزیمت کدھر کی ہے
لٹتے ہیں مارے جاتے ہیں یوں ہی سنا کیے
ہر بار دی وہ امن کہ غیرت حضر کی ہے
ہم کو اپنے سائے میں آرام ہی سے لائے
حیلے بہانے والوں کو یہ راہ ڈر کی ہے
ماہ مدینہ اپنی تجلی عطا کرے
یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے
اس کے طفیل حج بھی خدا نے کرا دئیے
اصل مراد حاضری اس پاک در کی ہے
کعبہ کا نام تک نہ لیا طیبہ ہی کہا
پوچھا تھا ہم سے جس نے کہ نہضت کدھر کی ہے
ان پر درود جن کو حجر تک کریں سلام
ان پر سلام جن کو تحیت شجر کی ہے
جن و بشر سلام کو حاضر ہیں السلام
یہ بارگاہ مالک جن و بشر کی ہے
ان پر درود جن کو کس بیکساں کہیں
ان پر سلام جن کو خبر بے خبر کی ہے
شمس و قمر سلام کو حاضر ہی السلام
خوبی انہی کی جوت سے شمس و قمر کی ہے
سب بحر و بر سلام کو حاضر ہیں السلام
تملیک انہی کے نام تو بحر و بر کی ہے
سنگ و شجر سلام کو حاضر ہیں السلام
کلمے سے تر زبان درخت و حجر کی ہے
عرض و اثر سلام کو حاضر ہیں السلام
ملجا یہ بارگاہ دعا و اثر کی ہے
شوریدہ سر سلام کو حاضر ہیں السلام
راحت انہی کے قدموں میں شویدہ سر کی ہے
خستی جگر سلام کو حاضر ہیں السلام
مرہم یہیں کی خاک تو خستہ جگر کی ہے
سب خشک و تر سلام کو حاضر ہیں السلام
یہ جلو گاہ مالک ہر خشک و تر کی ہے
سب کروفر سلام کو حاضر ہیں السلام
ٹوپی یہیں تو خاک پہ ہر کروفر کی ہے
اہل نظر سلام کو حاضر ہیں السلام
یہ گرد ہی تو سرمہئ سب اہل نظر کی ہے
پیغام صبا لائی ہے گلزار نبی سے
حالیہ پوسٹیں
- جو ہر شے کی حقیقت ہے جو پنہاں ہے حقیقت میں
- عرشِ حق ہے مسندِ رفعت رسولُ اللہ کی
- دل پھر مچل رہا ہے انکی گلی میں جاؤں
- دل رہ گیا ہے احمدِ مختار کی گلی میں
- آج آئے نبیوں کے سردار مرحبا
- ذرے اس خاک کے تابندہ ستارے ہونگے
- شبنم میں شراروں میں گلشن کی بہاروں میں
- سرور انبیاء کی ہے محفل سجی
- یادِ وطن ستم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں
- مدینے کی ٹھنڈی ہواؤں پہ صدقے
- نظر اک چمن سے دوچار ہے نہ چمن چمن بھی نثار ہے
- یہ ناز یہ انداز ہمارے نہیں ہوتے
- خدا کی قسم آپ جیسا حسیں
- احمد کہُوں ک ہحامدِ یکتا کہُوں تجھے
- پاٹ وہ کچھ دَھار یہ کچھ زار ہم
- سحابِ رحمتِ باری ہے بارھویں تاریخ
- دل دیاں گلاں میں سناواں کس نوں
- میرے اتے کرم کما سوھنیا
- بندہ ملنے کو قریبِ حضرتِ قادر گیا
- وہ یوں تشریف لائے ہم گنہ گاروں کے جھرمٹ میں