یہ سینہ اور یہ دل دوسرا معلوم ہوتا ہے

یہ سینہ اور یہ دل دوسرا معلوم ہوتا ہے

کوئی پردوں میں دل کے آ چھپا معلوم ہوتا ہے

دلِ دیوانہ یہ وقتِ دعا معلوم ہوتا ہے

حریمِ ناز کا پردہ اٹھا معلوم ہوتا ہے

مدینے تک پہنچ جائے پہنچ جائے تو مر جائے

یہی بیمارِ غم کا مدّعا معلوم ہوتا ہے

کوئی منزل ہو کوئی آستاں ہو کوئی محفل ہو

وہ نورِ سرمدی ہی جا بجا معلوم ہوتا ہے

وفورِ درد احساساتِ افسردہ بتاؤں کیا

مجھے محسوس کیا ہوتا ہے کیا معلوم ہوتا ہے

سمٹ کر دو جہاں کی وسعتیں آئیں تخیل میں

تصور سرورِ لولاک کا معلوم ہوتا ہے

سحرؔ کے لب بافراطِ ادب بے تابِ جنبش ہیں

سنو ، صلِّ علیٰ صلِّ علیٰ معلوم ہوتا ہے


حالیہ پوسٹیں


Leave a comment