تیرے در سے تیری عطا مانگتے ہیں
نہ کچھ اور اسکے سِوا مانگتے ہیں
اندھیروں میں ڈوبی ہوئی زندگی ہے
اے نورِ مجسم ضیاء مانگتے ہیں
حشر میں جہاں کوئی پُرساں نہ ہو گا
تیرے نام کا آسرا مانگتے ہیں
چھُٹے نہ کہیں کملی والے کا دامن
خدا سے یہی اِک دعا مانگتے ہیں
اگر جیتے جی پہنچ جائیں مدینے
تو واپس نہ آئیں قضا مانگتے ہیں
تیری دید بن اور جینا ہے مشکل
تیرے پاس رہنا سدا مانگتے ہیں
تیرے در سے تیری عطا مانگتے ہیں
حالیہ پوسٹیں
- دل دیاں اکھاں کدی کھول تے سہی
- دل دیاں گلاں میں سناواں کس نوں
- تسکینِ دل و جاں ہیں طیبہ کے نظارے بھی
- ترا ظہور ہوا چشمِ نور کی رونق
- دونوں جہاں کا حسن مدینے کی دُھول ہے
- ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا
- افکار کی لذت کیا کہنا جذبات کا عالم کیا کہنا
- دل رہ گیا ہے احمدِ مختار کی گلی میں
- رب دے پیار دی اے گل وکھری
- ادھر بھی نگاہِ کرم یا محمد ! صدا دے رہے ہیں یہ در پر سوالی
- یا رب میری آہوں میں اثرہے کہ نہیں ہے
- صانع نے اِک باغ لگایا
- ہے کلامِ الٰہی میں شمس و ضحی ترے چہرہ ءِ نور فزا کی قسم
- سب سے افضل سب سے اعظم
- رب کولوں اساں غم خوار منگیا
- رشک کیوں نہ کروں انکی قسمت پہ میں
- لطف ان کا عام ہو ہی جائے گا
- آمنہ بی بی کے گلشن میں آئی ہے تازہ بہار
- ہر وقت تصور میں مدینے کی گلی ہو
- انکی مدحت کرتے ہیں