نارِ دوزخ کو چمن کر دے بہارِ عارض
ظلمتِ حشر کو دِن کردے نہارِ عارض
میں تو کیا چیز ہوں خود صاحبِ قرآں کو شہا
لاکھ مصحف سے پسند آئی بہارِ عارض
جیسے قرآن ہے ورد اُس گلِ محبوبی کا
یوں ہی قرآں کا وظیفہ ہے وقارِ عارض
گرچہ قرآں ہے نہ قرآں کی برابر لیکن
کچھ تو ہے جس پہ ہے وہ مَدح نگارِ عارض
طور کیا عرش جلے دیکھ کے وہ جلوۂ گرم
آپ عارض ہو مگر آئینہ دارِ عارض
طرفہ عالم ہے وہ قرآن اِدھر دیکھیں اُدھر
مصحفِ پاک ہو حیران بہارِ عارض
ترجمہ ہے یہ صفت کا وہ خود آئینۂ ذات
کیوں نہ مصحف سے زیادہ ہو وقارِ عارض
جلوہ فرمائیں رخِ دل کی سیاہی مٹ جائے
صبح ہو جائے الٰہی شبِ تارِ عارض
نامِ حق پر کرے محبوب دل و جاں قرباں
حق کرے عرش سے تا فرش نثارِ عارض
مشک بو زلف سے رخ، چہرہ سے بالوں میں شعاع
معجزہ ہے حلبِ زلف و تتارِ عارض
حق نے بخشا ہے کرم نذرِ گدایاں ہو قبول
پیارے اک دِل ہے وہ کرتے ہیں نثارِ عارض
آہ بے مایَگیِ دل کہ رؔضائے محتاج
لے کر اِک جان چلا بہرِ نثارِ عارض
حدائقِ بخشش
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان
نارِ دوزخ کو چمن کر دے بہارِ عارض
حالیہ پوسٹیں
- جب سے ان کی گلی کا گدا ہو گیا
- طیبہ کی ہے یاد آئی اب اشک بہانے دو
- کیا بتاؤں کہ شہرِ نبی میں پہنچ جانا ہے کتنی سعادت
- خدا کی خلق میں سب انبیا خاص
- منظر فضائے دہر میں سارا علی کا ہے
- خوب نام محمد ھے اے مومنو
- میں کہاں پہنچ گیا ہوں تیرا نام جپتے جپتے
- تمہارے ذرے کے پرتو ستار ہائے فلک
- کہتے ہیں عدی بن مسافر
- جانبِ مغرب وہ چمکا آفتاب
- سنتے ہیں کہ محشر میں صرف اُن کی رسائی ہے
- شجرہ نصب نبی اکرم محمد صلی اللہ وسلم
- حُضور! آپ کا رُتبہ نہ پا سکا کوئی
- مبارک ہو وہ شہ پردہ سے باہر آنے والا ہے
- صانع نے اِک باغ لگایا
- پڑے مجھ پر نہ کچھ اُفتاد یا غوث
- اٹھا دو پردہ دِکھا دو چہرہ، کہ نور باری حجاب میں ہے
- عرش پر بھی ہے ذکرِ شانِ محؐمد
- یادِ سرکارِ طیبہ جو آئی
- نہ کہیں سے دُور ہیں مَنزلیں نہ کوئی قریب کی بات ہے