سر بزم جھومتا ہے سر عام جھومتا ہے
تیرا نام سن کے تیرا یہ غلام جھومتا ہے
جو ملا مقام جس کو وہ ملا تیرے کرم سے
تو قدم جہاں بھی رکھے وہ مقام جھومتاہے
میں نے جس نماز میں بھی تیرا کر لیا تصور
میرا وہ رکوع و سجدہ وہ قیام جھومتاہے
تیرے نام نے عطا کی میرے نام کو بھی عظمت
تیرا نام ساتھ ہو تو میرا نام جھومتاہے
تیرے مے کدے میں آیا تو کھلا یہ راز طاہرؔ
تیرے ہاتھ سے ملے جو وہی جام جھومتاہے
سر بزم جھومتا ہے سر عام جھومتا ہے
حالیہ پوسٹیں
- عشقِ مولیٰ میں ہو خوں بار کنارِ دامن
- ادھر بھی نگاہِ کرم یا محمد ! صدا دے رہے ہیں یہ در پر سوالی
- جب سے ان کی گلی کا گدا ہو گیا
- ذکرِ احمد میں گزری جو راتیں حال انکا بتایا نہ جائے
- رب کولوں اساں غم خوار منگیا
- تصور میں منظر عجیب آ رہا ہے
- نہ کلیم کا تصور نہ خیالِ طور سینا
- آکھیں سونہڑے نوں وائے نی جے تیرا گزر ہو وے
- دعا
- اے حبِّ وطن ساتھ نہ یوں سوے نجف جا
- غم ہو گئے بے شمار آقا
- طلسماتِ شب بے اثر کرنے والا
- کبھی ان کی خدمت میں جا کے تودیکھو
- صانع نے اِک باغ لگایا
- نارِ دوزخ کو چمن کر دے بہارِ عارض
- دل میں ہو یاد تری گوشۂ تنہائی ہو
- دل پھر مچل رہا ہے انکی گلی میں جاؤں
- دل رہ گیا ہے احمدِ مختار کی گلی میں
- سب کچھ ہے خدا،اُس کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
- کیا ٹھیک ہو رُخِ نبوی پر مثالِ گل