دیوانوں کا جشنِ عام
جس کو کہتے ہیں قیامت حشر جس کا نام ہے
در حقیقت تیرے دیوانوں کا جشنِ عام ہے
عظمتِ فرقِ شہِ کونین کیا جانے کوئی
جس نے چومے پائے اقدس عرش اُس کا نام ہے
آ رہے ہیں وہ سرِ محشر شفاعت کے لیے
اب مجھے معلوم ہے جو کچھ مِرا انجام ہے
تو اگر چاہے تو پھر جائیں سیہ کاروں کے دن
ہاتھ میں تیرے عنانِ گردشِ ایّام ہے
روئے انور کا تصور زلفِ مشکیں کا خیال
کیسی پاکیزہ سحر ہے کیا مبارک شام ہے
دل کو یہ کہہ کر رہِ طیبہ میں بہلاتا ہوں میں
آ گئی منزل تِری، بس اور دو ،اک گام ہے
سا قیِ کوثر کا نامِ پاک ہے وردِ زباں
کون کہتا ہے کہ تحسیؔں آج تشنہ کام ہے

جس کو کہتے ہیں قیامت حشر جس کا نام ہے
حالیہ پوسٹیں
- بھر دو جھولی میری یا محمد
- مجھ پہ چشمِ کرم اے میرے آقا کرنا
- وہ یوں تشریف لائے ہم گنہ گاروں کے جھرمٹ میں
- اُجالی رات ہوگی اور میدانِ قُبا ہوگا
- یادِ وطن ستم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں
- سارے نبیوں کے عہدے بڑے ہیں لیکن آقا کا منصب جدا ہے
- نارِ دوزخ کو چمن کردے بہارِ عارض
- بس! محمد ہے نبی سارے زمانے والا
- کرے چارہ سازی زیارت کسی کی بھرے زخم دل کے ملاحت کسی کی
- انکے درِ نیاز پر سارا جہاں جھکا ہوا
- جا زندگی مدینے سے جھونکے ہوا کے لا
- مجھ پہ بھی میرے آقا گر تیرا کرم ہووے
- خدا کی خلق میں سب انبیا خاص
- ہم درِ مصطفےٰ دیکھتے رہ گئے
- دیس عرب کے چاند سہانے رکھ لو اپنے قدموں میں
- اب تنگی داماں پہ نہ جا اور بھی کچھ مانگ
- اپنی رحمت کے سمندر میں اُتر جانے دے
- خندہ پیشانی سے ہر صدمہ اُٹھاتے ہیں حسین
- دل میں ہو یاد تیری گوشہ تنہائی ہو
- کون ہو مسند نشیں خاکِ مدینہ چھوڑ کر