یہ نہ پوچھو ملا ہمیں درِ خیرالورٰی سے کیا
نظر ان کی پڑی تو ہم ہوئے پل بھر میں کیا سے کیا
مرے دل کی وہ دھڑکنیں دمِ فریاد سنتے ہیں
متوجہِ جو ہیں ، وہ ہیں ، مجھے بادِ صبا سے کیا
نظر ان کی جو ہو گئی اثر آیا دعا میں بھی
مرے دل کی تڑپ ہی کیا ، مرے دل کی صدا سے کیا
جسے اس کا یقیں ہے کے وہی بخشوائیں گے
کوئی خطرہ، کوئی جھجک اُسے روزِ جزا سے کیا
رہِ طیبہ میں بے خودی کے مناظر ہیں دیدنی
کبھی نقشے ہیں کچھ سے کچھ ، کبھی جلوے ہیں کیا سے کیا
اثر انداز اس پہ بھی مرے آقا کا رنگ ہے
کہیں آنکھیں ملائے گا کوئی ان کے گدا سے کیا
اجل آتی ہے روبرو ، تو دبے پاؤں ، با وضو
جو محمد پہ مر مٹا ، اسے ڈرنا قضا سے کیا
دمِ مدحت خشوغِ دل اس سے ضروری ہے ہے استماع
نہ مخاطب جو ہو کوئی کروں باتیں ہوا سے کیا
جسے آدابِ گلشنِ نبوی کی خبر نہیں
وہ بھلا لے کے جائے گا چمنِ مصطفی سے کیا
جسے خیرات بے طلب ملے بابِ رسول سے
اُسے دارین میں نصیرؔ غرض ماسوا سے کیا

یہ نہ پوچھو ملا ہمیں درِ خیرالورٰی سے کیا
حالیہ پوسٹیں
- طیبہ سارے جگ توں جدا سوھنیا
- میں لب کشا نہیں ہوں اور محو التجا ہوں
- ہر دم تیری باتیں کرنا اچھا لگتا ہے
- خدا کی خدائی کے اسرار دیکھوں
- مدینے کا شاہ سب جہانوں کا مالک
- دل مِرا دنیا پہ شیدا ہو گیا
- مولاي صل و سلم دائما أبدا
- دلوں میں اجالا تیرے نام سے ہے
- تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہو گا
- کیا کریں محفل دلدار کو کیوں کر دیکھیں
- یا نبی نظری کرم فرمانا ، یا نبی نظر کرم فرمانا ،
- کیا ہی ذوق افزا شفاعت ہے تمھاری واہ واہ
- لطف ان کا عام ہو ہی جائے گا
- عشقِ مولیٰ میں ہو خوں بار کنارِ دامن
- پھر کرم ہو گیا میں مدینے چلا
- افکار کی لذت کیا کہنا جذبات کا عالم کیا کہنا
- بیاں ہو کس زباں سے مرتبہ صدیق اکبر کا
- طیبہ کی ہے یاد آئی اب اشک بہانے دو
- تصور میں منظر عجیب آ رہا ہے
- کوئی سلیقہ ہے آرزو کا ، نہ بندگی میری بندگی ہے