تسکینِ دل و جاں ہیں طیبہ کے نظارے بھی
ٹھنڈک ہیں نگاہوں کی گنبد بھی مینارے بھی
لو نام محؐمد کا مشکل کی آسانی کو
خود بڑھ کے سمیٹیں گے دریا کو کنارے بھی
ہر رنگ میں یکتائی ہر روپ نرالا ہے
ہیں عرش کے والی بھی دنیا کے سہارے بھی
عاصی دمِ آخر جب آقا کو پکاریں ہیں
غنچوں میں بدل جائیں دوزخ کے شرارے بھی
اِک روز مدینے میں ہم پہنچیں گے انشاء اللہ
رنگ لائیں گے آخر کو یہ نیر ہمارے بھی
تسکینِ دل و جاں ہیں طیبہ کے نظارے بھی
حالیہ پوسٹیں
- نہ زر نہ ہی جاہ و حشم کی طلب ہے
- عشقِ مولیٰ میں ہو خوں بار کنارِ دامن
- مجھے در پہ پھر بلانا مدنی مدینے والے
- پھر کرم ہو گیا میں مدینے چلا
- خندہ پیشانی سے ہر صدمہ اُٹھاتے ہیں حسین
- افکار کی لذت کیا کہنا جذبات کا عالم کیا کہنا
- دعا
- سرور کہوں کہ مالک و مولیٰ کہوں تجھے
- کیوں کرہم اہلِ دل نہ ہوں دیوانۂ رسولؐ
- آمنہ بی بی کے گلشن میں آئی ہے تازہ بہار
- روک لیتی ہے آپ کی نسبت تیر جتنے بھی ہم پہ چلتے ہیں
- کس نے غنچوں کو نازکی بخشی
- تم بات کرو ہونہ ملاقات کرو ہو
- کچھ نہیں مانگتا شاہوں سے یہ شیدا تیرا
- لم یات نطیرک فی نظر، مثل تو نہ شد پیدا جانا
- ہر لب پہ ہے تیری ثنا ، ہر بزم میں چرچا ترا
- دل دیاں اکھاں کدی کھول تے سہی
- تلو مونی علی ذنب عظیم
- کہتے ہیں عدی بن مسافر
- آج اشک میرے نعت سنائیں تو عجب کیا