اب تنگی داماں پہ نہ جا اور بھی کچھ مانگ
ہیں آج وہ مائل بہ عطا اور بھی کچھ مانگ
ہیں وہ متوجہ’ تو دعا اور بھی کچھ مانگ،
جو کچھ تجھے ملنا تھا ملا’ اور بھی کچھ مانگ
ہر چند کے مولا نے بھرا ہے تیرا کشکول
کم ظرف نہ بن ہاتھ بڑھا’ اور بھی کچھ مانگ
چھو کر ابھی آی ہے سر زلف محمدﷺ
کیا چاہیے اے باد صبا اور بھی کچھ مانگ
یا سرور دیں’ شاہ عرب’ رحمت عالم
دے کر تہ دل سے یہ صدا اور بھی کچھ مانگ
سرکارﷺ کا در ہے در شاہاں تو نہیں ہے
جو مانگ لیا مانگ لیا اور بھی کچھ مانگ
جن لوگوں کو یہ شک ہے کرم ان کا ہے محدود
ان لوگوں کی باتوں پے نہ جا اور بھی کچھ مانگ
اس در پے یہ انجام ہوا حسن طلب کا
جھولی میری بھر بھر کے کہا اور بھی کچھ مانگ
سلطان مدینہ کی زیارت کی دعا کر
جنت کی طلب چیز ہے کیا اور بھی کچھ مانگ
دے سکتے ہیں کیا کچھ کے وہ کچھ دے نہیں سکتے
یہ بحث نہ کر ہوش میں آ اور بھی کچھ مانگ
مانا کے اسی در سے غنی ہو کے اٹھا ہے
پھر بھی در سرکارﷺ پہ جا اور بھی کچھ مانگ
پہنچا ہے جو اس در پے تو رہ رہ کے نصیر آج
آواز پہ آواز لگا اور بھی کچھ مانگ
اب تنگی داماں پہ نہ جا اور بھی کچھ مانگ
حالیہ پوسٹیں
- دل رہ گیا ہے احمدِ مختار کی گلی میں
- زمین و زماں تمہارے لئے ، مکین و مکاں تمہارے لیے
- قبلہ کا بھی کعبہ رُخِ نیکو نظر آیا
- دل پھر مچل رہا ہے انکی گلی میں جاؤں
- وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
- اینویں تے نیئیں دل دا قرار مُک چلیا
- در پیش ہو طیبہ کا سفر کیسا لگے گا
- کیونکر نہ میرے دل میں ہو الفت رسول کی
- طیبہ کی ہے یاد آئی اب اشک بہانے دو
- سرکار دو عالم کے رخ پرانوار کا عالم کیا ہوگا
- مدینے کا شاہ سب جہانوں کا مالک
- اے دینِ حق کے رہبر تم پر سلام ہر دم
- خاکِ طیبہ کی اگر دل میں ہو وقعت محفوظ
- بندہ ملنے کو قریبِ حضرتِ قادر گیا
- وہ یوں تشریف لائے ہم گنہ گاروں کے جھرمٹ میں
- نازشِ کون ومکاں ہے سنتِ خیرالوری
- مجھ پہ چشمِ کرم اے میرے آقا کرنا
- تیری رحمتوں کا دریا سر عام چل رہا ہے
- ہے پاک رُتبہ فکر سے اُس بے نیاز کا
- سر تا بقدم ہے تن سلطان زمن پھول