جاتے ہیں سوے مدینہ گھر سے ہم
باز آئے ہندِ بد اختر سے ہم
مار ڈالے بے قراری شوق کی
خوش تو جب ہوں اِس دلِ مضطر سے ہم
بے ٹھکانوں کا ٹھکانا ہے یہی
اب کہاں جائیں تمہارے دَر سے ہم
تشنگیِ حشر سے کچھ غم نہیں
ہیں غلامانِ شہِ کوثر سے ہم
اپنے ہاتھوں میں ہے دامانِ شفیع
ڈر چکے بس فتنۂ محشر سے ہم
نقشِ پا سے جو ہوا ہے سرفراز
دل بدل ڈالیں گے اُس پتھر سے ہم
گردن تسلیم خم کرنے کے ساتھ
پھینکتے ہیں بارِ عصیاں سر سے ہم
گور کی شب تار ہے پر خوف کیا
لَو لگائے ہیں رُخِ انور سے ہم
دیکھ لینا سب مرادیں مل گئیں
جب لپٹ کر روئے اُن کے دَر سے ہم
کیا بندھا ہم کو خد اجانے خیال
آنکھیں ملتے ہیں جو ہر پتھر سے ہم
جانے والے چل دیئے کب کے حسنؔ
پھر رہے ہیں ایک بس مضطر سے ہم
جاتے ہیں سوے مدینہ گھر سے ہم
حالیہ پوسٹیں
- طیبہ دیاں گلاں صبح و شام کریے
- خدا کی خدائی کے اسرار دیکھوں
- وہی رب ہے جس نے تجھ کو ہمہ تن کرم بنایا
- کیا مہکتے ہیں مہکنے والے
- تھی جس کے مقدر میں گدائی ترے در کی
- جس نے مدینے جانڑاں کر لو تیاریاں
- آمنہ بی بی کے گلشن میں آئی ہے تازہ بہار
- طیبہ والا جدوں دا دیار چھٹیا
- خوشبوے دشتِ طیبہ سے بس جائے گر دماغ
- لَنْ تَرَانِیْ نصیبِ موسیٰ تھی
- میں بھی روزے رکھوں گا یا اللہ توفیق دے
- اُجالی رات ہوگی اور میدانِ قُبا ہوگا
- حُسن سارے کا سارا مدینے میں ہے
- دل و نگاہ کی دنیا نئی نئی ہوئی ہے
- یہ کس نے پکارا محمد محمد بڑا لطف آیا سویرے سویرے
- دل میں ہو یاد تیری گوشہ تنہائی ہو
- دمِ آخر الہیٰ جلوۂِ سرکار ہو جائے
- جو گزریاں طیبہ نگری وچ او گھڑیاں مینوں بھلدیاں نئیں
- دشتِ مدینہ کی ہے عجب پُر بہار صبح
- بے اجازت اُس طرف نظریں اٹھا سکتا ہے کون