دل پھر مچل رہا ہے انکی گلی میں جاؤں
چوکھٹ پہ رکھ کے سر کو بیتی ہے جو سناؤں
میرے رحیم آقا مجھ کو یہ اِذن دے دے
باقی ہیں جتنی سانسیں تیرے در پہ میں بیتاؤں
میں اپنا خالی دامن جلووں سے تیرے بھر لوں
لیکھوں میں جو ہے لکھی سب تیرگی مٹاؤں
چکر لگاؤں ہر دم روضے کی چاروں جانب
جی بھر کے دیکھوں گنبد اور تشنگی مٹاؤں
کیا نوری روز و شب تھے طیبہ میں جو ہیں بیتے
میں بھولنا بھی چاہوں تو کبھی نہ بھول پاؤں
طیبہ میں جان نکلے ہر اک نفس کی خواہش
اے کاش جا کے طیبہ میں بھی نہ لوٹ پاؤں
یہ تیرا کرم ہے آقا محبوؔب پر وگرنہ
کہاں میں کہاں ہے آقا تیرے نگر کی چھاؤں
دل پھر مچل رہا ہے انکی گلی میں جاؤں
حالیہ پوسٹیں
- میرا تو سب کچھ میرا نبی ہے
- بس میرا ماہی صل علیٰ
- نہ کلیم کا تصور نہ خیالِ طور سینا
- چار یار نبی دے چار یار حق
- میں کہاں اور تیری حمد کا مفہوم کہاں
- نارِ دوزخ کو چمن کردے بہارِ عارض
- نازشِ کون ومکاں ہے سنتِ خیرالوری
- تیرا کھاواں میں تیرے گیت گاواں یارسول اللہ
- بھر دو جھولی میری یا محمد
- عکسِ روئے مصطفے سے ایسی زیبائی ملی
- تمہارا نام مصیبت میں جب لیا ہو گا
- یہ نہ پوچھو ملا ہمیں درِ خیرالورٰی سے کیا
- کس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہے
- رب کی بخشش مل جائیگی عاصیو اتنا کام کرو
- مجھ پہ بھی میرے آقا گر تیرا کرم ہووے
- اپنی رحمت کے سمندر میں اُتر جانے دے
- طور نے تو خوب دیکھا جلوۂ شان جمال
- لطف ان کا عام ہو ہی جائے گا
- تم پر میں لاکھ جان سے قربان یا رسول
- خدا تو نہیں با خدا مانتے ہیں