طور نے تو خوب دیکھا جلوۂ شان جمال
اس طرف بھی اک نظر اے برق تابان جمال
اک نظر بے پردہ ہو جائے جو لمعان جمال
مر دم دیدہ کی آنکھوں پر جو احسان جمال
جل گیا جس راہ میں سرد خرامان جمال
نقش پا سے کھل گئے لاکھوں گلستان جمال
ہے شب غم اور گرفتاران ہجران جمال
مہر کر ذرّوں پہ اے خورشید تابان جمال
کر گیا آخر لباسِ لالہ و گل میں ظہور
خاک میں ملتا نہیں خون شہیدانِ جمال
ذرّہ ذرّہ خاک کا ہو جائے گا خورشید حشر
قبر میں لے جائیں گے عاشق جو ارمانِ جمال
ہو گیا شاداب عالم آ گئی فصل بہار
اٹھ گیا پردہ کھلا باب گلستان جمال
جلوۂ موئے محاسن چہرۂ انور کے گرد
آبنوسی رحل پررکھا ہے قرآنِ جمال
اُس کے جلوے سے نہ کیوں کافور ہوں ظلمات کفر
پیش گاہِ نور سے آیا ہے فرمانِ جمال
کیا کہوں کتنا ہے ان کی رہ گزر میں جوش حسن
آشکارا ذرّہ ذرّہ سے ہے میدانِ جمال
ذرّۂ دَر سے ترے ہم سفر ہوں کیا مہر و قمر
یہ ہے سلطان جمال اور وہ گدایانِ جمال
کیا مزے کی زندگی ہے زندگی عشاق کی
آنکھیں اُن کی جستجو میں دل میں ارمانِ جمال
رو سیاہی نے شب دیجور کو شرما دیا
مونہہ اُجالا کر دے اے خورشید تابان جمال
ابروئے پر خم سے پیدا ہے ہلال ماہ عید
مطلع عارض سے روشن بدر تابان جمال
دل کشئ حسن جاناں کا ہو کیا عالم بیاں
دل فدائے آئینہ آئینہ قربان جمال
پیش یوسف ہاتھ کاٹے ہیں زنان مصر نے
تیری خاطر سر کٹا بیٹھے فدایان جمال
تیرے ذرہ پر شب غم کی جفائیں تابکے
نور کا تڑکا دکھا اے مہر تابان جمال
اتنی مدت تک ہو دید مصحف عارض نصیب
حفظ کر لوں ناظرہ پڑھ پڑھ کے قرآن جمال
یا خدا دل کی گلی سے کون گزرا ہے کہ آج
ذرّہ ذرّہ سے ہے طالع مہر تابانِ جمال
اُن کے در پر اس قدر بٹتا ہے باڑہ نور کا
جھولیاں بھر بھر کے لاتے ہیں گدایان جمال
نور کی بارش حسنؔ پر ہو ترے دیدار سے
دل سے دھل جائے الٰہی داغ حرمان جمال

طور نے تو خوب دیکھا جلوۂ شان جمال
حالیہ پوسٹیں
- تم پر میں لاکھ جان سے قربان یا رسول
- چمن دلوں کے کھلانا، حضور جانتے ہیں
- وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک
- سن لو خدا کے واسطے اپنے گدا کی عرض
- دل پھر مچل رہا ہے انکی گلی میں جاؤں
- کس کی مجال ہے کہ وہ حق تیرا ادا کرے
- وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
- اے کہ ترے جلال سے ہل گئی بزمِ کافری
- یا رسول الله تیرے در کی فضاؤں کو سلام
- بے اجازت اُس طرف نظریں اٹھا سکتا ہے کون
- کس نے غنچوں کو نازکی بخشی
- اللہ دے حضور دی اے گل وکھری
- اک میں ہی نہیں ان پر قربان زمانہ ہے
- پھر دل میں بہاراں کے آثار نظر آئے
- تیری شان کیا شاہِ والا لکھوں
- رکتا نہیں ہرگز وہ اِدھر باغِ ارم سے
- نہ کہیں سے دُور ہیں مَنزلیں نہ کوئی قریب کی بات ہے
- یادِ وطن ستم کیا دشتِ حرم سے لائی کیوں
- اگر چمکا مقدر خاک پاے رہرواں ہو کر
- دل رہ گیا ہے احمدِ مختار کی گلی میں