ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے
قلبِ حیراں کی تسکیں وہیں رہ گئی
دل وہیں رہ گیا جاں وہیں رہ گئی
خم اُسی در پہ اپنی جبیں رہ گئی
اللہ اللہ وہاں کا درود و سلام
اللہ اللہ وہاں کا سجود و قیام
اللہ اللہ وہاں کا وہ کیفِ دوام
وہ صلاۃِ سکوں آفریں رہ گئی
جس جگہ سجدہ ریزی کی لذت ملی
جس جگہ ہر قدم اُن کی رحمت ملی
جس جگہ نور رہتا ہے شام و سحر
وہ فلک رہ گیا وہ زمیں رہ گئی
پڑھ کے نصر من اللہ فتح قریب
جب ہوئے ہم رواں سوئے کوئے حبیب
برکتیں رحمتیں ساتھ چلنے لگیں
بے بسی زندگی کی یہیں رہ گئی
یاد آتے ہیں ہم کو وہ شام و سحر
وہ سکونِ دل و جاں وہ روح و نظر
یہ اُنہی کا کرم ہے اُنہی کی عطا
ایک کیفیتِ دل نشیں رہ گئی
زندگانی وہیں کاش ہوتی بسر
کاش بہزاد آتے نہ ہم لوٹ کر
اور پوری ہوئی ہر تمنا مگر
یہ تمنائے قلبِ حزیں رہ گئی

ہم مدینے سے اللہ کیوں آگئے
حالیہ پوسٹیں
- قربان میں اُن کی بخشش کے مقصد بھی زباں پر آیا نہیں
- عاصیوں کو دَر تمہارا مل گیا
- غلام حشر میں جب سید الوریٰ کے چلے
- ذاتِ والا پہ بار بار درود
- نہ آسمان کو یوں سر کشیدہ ہونا تھا
- کون کہتا ہے کہ زینت خلد کی اچھی نہیں
- نامِ نبیؐ تو وردِ زباں ہے ناؤ مگر منجدھار میں ہے
- سر محشر شفاعت کے طلب گاروں میں ہم بھی ہیں
- اللہ نے پہنچایا سرکار کے قدموں میں
- خلق کے سرور شافع محشر صلی اللہ علیہ وسلم
- جا زندگی مدینے سے جھونکے ہوا کے لا
- رُخ دن ہے یا مہرِ سما ، یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں
- اُجالی رات ہوگی اور میدانِ قُبا ہوگا
- تو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا
- کیا مژدۂ جاں بخش سنائے گا قلم آج
- بھر دو جھولی میری یا محمد
- احمد کہُوں ک ہحامدِ یکتا کہُوں تجھے
- نہ کلیم کا تصور نہ خیالِ طور سینا
- خوشبوے دشتِ طیبہ سے بس جائے گر دماغ
- اے عشقِ نبی میرے دل میں بھی سما جانا