تڑپ رہاں ہوں میں کب سے یا رب مدینہ میرے نصیب کر دے
میں دور منزل سے رہ گیا ہوں تو میری منزل قریب کر دے
ہوں ہجرِ طیبہ میں نیم بسمل نہیں ہے کچھ سانس کا بھروسہ
میں جاں بہ لب تشنہ آرزو ہوں مداوا کچھ تو طبیب کر دے
میں لٹ گیا ہوں رہِ سفرمیں نشانِ منزل بھی کھو چکا ہوں
نہ زادِ راہ ہے نہ کوئی توشہ کرم اے ربِ حبیب کر دے
گو نامہ میرا پر از خطا ہے تو بادشاہوں کا بادشاہ ہے
تو اپنی شانِ عُلیٰ کے صدقے حساب آساں حبیب کر دے
مدینہ دیکھوں میں اسطرح سے مدینے والا بھی جلوہ گر ہو
میں تیری شانِ صمد کے صدقے میری دعا کو مجیب کر دے
تڑپ رہاں ہوں میں کب سے یا رب
حالیہ پوسٹیں
- یا رب میری آہوں میں اثرہے کہ نہیں ہے
- رحمتِ حق ہے جلوہ فگن طیبہ کے بازاروں میں
- مل گئی دونوں عالم کی دولت ہاں درِ مصطفیٰ مل گیا ہے
- قبلہ کا بھی کعبہ رُخِ نیکو نظر آیا
- خوشبوے دشتِ طیبہ سے بس جائے گر دماغ
- اس کرم کا کروں شکر کیسے ادا جو کرم مجھ پہ میرے نبی کر دیا
- ارباب زر کےمنہ سے جب بولتا ہے پیسہ
- ہم خاک ہیں اور خاک ہی ماوا ہے ہمارا
- معطیِ مطلب تمہارا ہر اِشارہ ہو گیا
- پوچھتے کیا ہو عرش پر یوں گئے مصطفیٰ کہ یوں
- اک خواب سناواں
- ذکرِ احمد میں گزری جو راتیں حال انکا بتایا نہ جائے
- حمدِ خدا میں کیا کروں
- مجھ کو طیبہ میں بلا لو شاہ زمنی
- زہے عزت و اعتلائے محمد
- حدودِ طائر سدرہ، حضور جانتے ہیں
- اگر چمکا مقدر خاک پاے رہرواں ہو کر
- فاصلوں کو تکلف ہے ہم سے اگر ، ہم بھی بے بس نہیں ، بے سہارا نہیں
- گزرے جس راہ سے وہ سیدِ والا ہو کر
- عکسِ روئے مصطفے سے ایسی زیبائی ملی