انکے درِ نیاز پر سارا جہاں جھکا ہوا
گنبدِ آبگینہ رنگ آسماں جھکا ہوا
انکی نگاہِ ناز سے کوئی بھی نہ بچ سکا
دیکھ کے حُسنِ شعلہ رخ ہے باغباں جھکا ہوا
ادب گہہِ حضور میں شجر و حجر کی بات کیا
ہے مہر و مہ و مشتری کا کارواں جھکا ہوا
ڈالی جو عشق کی نظر عقل و خرد ہَوا ہوئے
ہر ایک ان کی بزم میں تھا نا گہاں جھکا ہُوا
گلی میں انکی سر کے بل چلو عزیز حاجیو
ہے انکے در پہ اک ہجومِ عاشقاں جھکا ہوا
انکی سخا انکی عطا ہے بے بہا بے انتہا
بھکاری بن کے در پہ ہے زمن زماں جھکا ہوا
ہاں سب کا مولا ہے نبی ہے سب کا پیشوا نبی
ہے ان کے در پہ خلق کا پیر و جواں جھکا ہوا

انکے درِ نیاز پر سارا جہاں جھکا ہوا
حالیہ پوسٹیں
- تیرا ذکر میری ہے زندگی تیری نعت میری ہے بندگی
- پل سے اتارو ، راہ گزر کو خبر نہ ہو
- سرکار یہ نام تمھارا سب ناموں سے ہے پیارا
- بارہ ربیع الاول كے دن ابرِ بہارا چھائے
- اﷲ سے کیا پیار ہے عثمانِ غنی کا
- شورِ مہِ نَو سن کر تجھ تک میں دَواں آیا
- عشق کے رنگ میں رنگ جائیں جب افکار تو کھلتے ہیں
- بڑی مشکل یہ ہے جب لب پہ تیرا ذکر آتا ہے
- تسکینِ دل و جاں ہیں طیبہ کے نظارے بھی
- وہ یوں تشریف لائے ہم گنہ گاروں کے جھرمٹ میں
- ایمان ہے قال مصطفائی
- ہر لب پہ ہے تیری ثنا ، ہر بزم میں چرچا ترا
- وہی جو خالق جہان کا ہے وہی خدا ہے وہی خدا ہے
- ترے دَر پہ ساجد ہیں شاہانِ عالم
- اب تنگی داماں پہ نہ جا اور بھی کچھ مانگ
- کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے ، وہی خدا ہے
- رب دیاں رحمتاں لٹائی رکھدے
- کدی میم دا گھونگھٹ چا تے سہی
- حُسن سارے کا سارا مدینے میں ہے
- آئینہ بھی آئینے میں منظر بھی اُسی کا