مجھ پہ چشمِ کرم اے میرے آقا کرنا
حق تو میرا بھی ہے رحمت کا تقاضہ کرنا
میں کہ زرہ ہوں مجھے وسعتِ صحرا دےدے
کہ تیرے بس میں ہے قطرے کو دریا کرنا
میں ہوں بےکس تیرا شیوہ ہے سہارہ دینا
میں ہوں بیمار تیرا کام ہے اچھا کرنا
تو کسی کو بھی اٹھاتا نہیں اپنے در سے
کہ تیری شان کے شایاں نہیں ایسا کرنا
تیرے صدقے وہ اُسی رنگ میں خود ہی ڈوبا
جس نے جس رنگ میں چاہا مجھے رسوا کرنا
یہ تیرا کام ہے اے آمنہ کے درِ یتیم
ساری امت کی شفاعت تنِ تنہا کرنا
کثرتِ شوق سے اوصاف مدینے میں ہیں گم
نہیں کُھلتا کہ مجھے چاہیے کیا کیا کرنا
شاملِ مقصدِ تخلیق یہ پہلو بھی رہا
بزمِ عالم کو سجا کر تیرا چرچا کرنا
بصراحت ورفعنالک ذکرک میں ہے
تیری تعریف کرنا تجھے اونچا کرنا
تیرے آگے وہ ہر اک منظرِ فطرت کا ادب
چاند سورج کا وہ پہروں تجھے دیکھا کرنا
تبِ اقدس کے مطابق وہ ہواؤں کا خیرام
دھوپ میں دوڑ کے وہ ابر کا سایہ کرنا
کنکروں کا تیرے اعجاز سے وہ بول اٹھنا
وہ درختوں کا تیری دید پہ جھوما کرنا
وہ تیرا درس کہ جھکنا تو خدا کے آگے
وہ تیرا حکم کہ خالق کو ہی سجدہ کرنا
چاند کی طرح تیرے گرد وہ تاروں کا ہجوم
وہ تیرا حلقہ اصحاب میں بیٹھا کرنا
کعبہ قوسین کی منزل پہ یکایک وہ طلب
شبِ اسرا وہ بلانا تجھے دیکھا کرنا
دشمن آجائے تو اٹھ کر وہ بچھانا چادر
حسنِ اخلاق سے غیروں کو بھی اپنا کرنا
کوئی فاروق سے پوچھے کہ کسے آتا ہے
دل کی دنیا کو نظر سے تہہ وبالا کرنا
اُن صحابہ کی خشت وار نگاہوں کو سلام
جن کا مسلک تھا طوافِ رخِ زیبا کرنا
مجھ پہ محشر میں نصیر اُن کی نظر پڑھ ہی گئی
کہنے والے اسے کہتے ہیں خدا کا کرنا

مجھ پہ چشمِ کرم اے میرے آقا کرنا
حالیہ پوسٹیں
- میں لب کشا نہیں ہوں اور محو التجا ہوں
- بارہ ربیع الاول كے دن ابرِ بہارا چھائے
- پھر کرم ہو گیا میں مدینے چلا
- خوشبوے دشتِ طیبہ سے بس جائے گر دماغ
- خوشی سب ہی مناتے ہیں میرے سرکار آتے ہیں
- مئے حُبِّ نبی سے جس کا دل سرشار ہو جائے
- سوھنیاں نیں آقا تیرے روضے دیاں جالیاں
- نازشِ کون ومکاں ہے سنتِ خیرالوری
- پیشِ حق مژدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے
- کیوں کرہم اہلِ دل نہ ہوں دیوانۂ رسولؐ
- رحمتِ حق ہے جلوہ فگن طیبہ کے بازاروں میں
- وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
- یہ نہ پوچھو ملا ہمیں درِ خیرالورٰی سے کیا
- کعبے پہ پڑی جب پہلی نظر، کیا چیز ہے دنیا بھول گیا
- اے سبز گنبد والے منظور دعا کرنا
- تو ہے وہ غوث کہ ہر غوث ہے شیدا تیرا
- بزم محشر منعقد کر مہر سامان جمال
- حُضور! آپ کا رُتبہ نہ پا سکا کوئی
- ان کا منگتا ہوں جو منگتا نہیں ہونے دیتے
- نہ آسمان کو یوں سرکشیدہ ہونا تھا